سوختن چو لالہ پیہم تاکجا
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

سوختن چو لالہ پیہم تاکجا
از سحر در یوض شبنم تا کجا
ترجمہ:
“میں کب تک گلِ لالہ کی طرح جلتا رہوں گا اور صبح سے شبنم اس کی گدائی کب تک کرتا رہوں گا؟”
تشریح:
اقبال اس شعر میں خودی، غیرت، اور خود انحصاری کے پیغام کو اجاگر کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے شخص کی کیفیت بیان کرتے ہیں جو مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔
گلِ لالہ کی طرح جلنا:
اقبال اپنے آپ کو لالے کے پھول سے تشبیہ دیتے ہیں، جو اپنی سرخی اور چمک کی وجہ سے جلنے کا تاثر دیتا ہے۔
یہ “جلنا” دراصل مشکلات، تکالیف، اور مسلسل آزمائشوں کی علامت ہے۔
اقبال اپنی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ کب تک اس جلن اور پریشانی میں مبتلا رہے گا۔
شبنم کی گدائی کرنا:
شبنم پانی کے وہ قطرے ہوتے ہیں جو صبح کے وقت پھولوں پر آتے ہیں اور انہیں تازگی بخشتے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ وہ ہر صبح شبنم کی بھیک مانگنے کی طرح کسی اور کے سہارے پر کب تک جیتا رہے گا؟
یہ دراصل دوسروں پر انحصار اور محتاجی کی علامت ہے، جسے اقبال مسترد کرتے ہیں۔
خودی کو مضبوط کرنے کی ضرورت:
اقبال اس شعر میں خود کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ اب انہیں دوسروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود اپنی قوت پر انحصار کرنا ہوگا۔
“مجھے اپنی خودی کو مضبوط کرنا ہوگا” کا مطلب یہ ہے کہ خودی اور خود مختاری ہی اصل طاقت ہے، جو انسان کو محتاجی سے نجات دلا سکتی ہے۔
انتھک محنت اور کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرنا:
اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ محنت اور جدوجہد کے بغیر کوئی قوم یا فرد کامیاب نہیں ہو سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ جیسے پہلے ہماری امت محنت اور عظمت کے اعلیٰ مقام پر تھی، ہمیں دوبارہ اسی طرح انتھک محنت کرکے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا ہوگا۔
شبنم کی محتاجی کے بجائے، ہمیں اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا ہوگا اور دوسروں سے توقعات رکھنے کے بجائے خود اپنے لیے راستہ بنانا ہوگا۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ کامیابی کسی کی دی ہوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ خود محنت کرنے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کی مدد کے محتاج بنے رہیں گے، تو کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں خودی، غیرت، اور محنت پر زور دیتے ہیں۔ وہ اپنی حالت پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کب تک وہ دوسروں کی محتاجی میں رہے گا؟ ان کا پیغام واضح ہے: خود کو مضبوط بنا کر اپنی عظمت کو بحال کرنا ہوگا اور دوسروں کی مدد کے بجائے اپنی محنت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔