پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

تا نگاہے افگنی بر روئے خویش


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

تا نگاہے افگنی بر روئے خویش

 می شوی زنجیری گیسوے خویش

ترجمہ:

“تاکہ تو خود اپنے روئے پُرنور کا نظارہ کر سکے، یوں تو اپنی ہی زلفوں کا قیدی بن جائے۔”

تشریح:

یہ شعر حسن، خود شناسی، اور اس کے اثرات پر مبنی ایک گہری حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ اقبال محبوب کو اپنے ہی حسن کی روشنی میں خود کو دیکھنے اور اس کی کشش میں گرفتار ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ تشریح کے مطابق:

روئے پُرنور کا نظارہ کرنا:

اقبال کہتا ہے کہ محبوب کو چاہیے کہ وہ اپنی ہی روشنی، جمال، اور حسن کو آئینے میں دیکھے۔

“روئے پُرنور” یعنی چمکتا ہوا چہرہ محبوب کے حسن کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ خود شناسی کی علامت ہے کہ محبوب کو خود اپنے حسن کا ادراک ہونا چاہیے۔

اپنی زلفوں کا قیدی بن جانا:

اقبال کہتا ہے کہ جب محبوب خود کو دیکھے گا، تو وہ اپنے ہی حسن میں گرفتار ہو جائے گا، جیسے کوئی اپنی زلفوں میں الجھ کر قید ہو جائے۔

“زلف” ہمیشہ عشق، دلکشی، اور محبوب کی کشش کی علامت رہی ہے، جو عاشق کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

یہاں شاعر یہ اشارہ دیتا ہے کہ محبوب کو اپنے حسن کی وسعت اور اثر کو محسوس کرنا چاہیے۔

حسن کا کمال اور خود کی پہچان:

اقبال یہ بیان کرتا ہے کہ حسن اتنا مکمل اور دلکش ہے کہ محبوب کو خود پر حیرت ہونے لگے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی حسن اتنا جادوئی ہوتا ہے کہ خود صاحبِ حسن بھی اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

اس میں خود شناسی اور حسن کی معراج کو پہچاننے کی علامت موجود ہے۔

خود پسندی اور حسن کا اثر:

اس شعر میں خود پسندی (Narcissism) کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے، جس میں محبوب اپنے ہی جمال میں کھو جاتا ہے۔

تاہم، یہ صرف خود پسندی نہیں بلکہ اپنے حسن کے کمال کو پہچاننے اور اس کی تاثیر کو جاننے کا پیغام ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ بعض اوقات حسن کی شدت اور کمال خود اس کے مالک کو بھی حیران کر دیتا ہے، اور وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

خلاصہ:

یہ شعر حسن، خود شناسی، اور اس کی کشش کی معراج کو بیان کرتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ محبوب اپنے چہرے کی روشنی کا نظارہ کرے اور خود ہی اپنی زلفوں کا قیدی بن جائے، یعنی وہ اپنے حسن کی وسعت اور کمال کو پہچان لے۔ یہ شعر حسن کی طاقت، اس کی کشش، اور خود آگاہی کی ایک بہترین مثال ہے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button