اشک خود بر خویش میریزم چو شمع
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

اشک خود بر خویش میریزم چو شمع
با شب یلدا در آ ویزم چوشمع
ترجمہ:
“میں شمع کی طرح اپنے ہی آنسو اپنے اوپر گرا رہا ہوں اور شمع کی طرح سیاہ رات کے ساتھ گتھم گتھا ہو رہا ہوں۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں قربانی، صبر، اور روشنی پھیلانے کے فلسفے کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ اپنی حالت کو شمع سے تشبیہ دیتے ہیں، جو خود جل کر روشنی دیتی ہے اور اندھیرے سے لڑتی ہے۔
شمع کی طرح اپنے آنسو خود پر گرانا:
اقبال کہتے ہیں کہ وہ شمع کی طرح ہیں، جو جلنے کے دوران قطرہ قطرہ پگھلتی ہے اور اس کے آنسو (موم) اسی پر گرتے ہیں۔
یہ خود پر گزرنے والی تکالیف اور درد کی علامت ہے، جو وہ دوسروں کے لیے سہتے ہیں۔
ان کے آنسو ان پر ہی گرتے ہیں، یعنی ان کا دکھ اور قربانی دوسروں کے لیے ہے، مگر درد کا بوجھ خود انہیں اٹھانا پڑتا ہے۔
سیاہ رات کے ساتھ گتھم گتھا ہونا:
سیاہ رات یہاں تاریکی، مایوسی، اور مشکلات کی علامت ہے۔
شمع کا کام روشنی دینا ہے، اور اسی طرح اقبال اپنی زندگی میں اندھیروں سے لڑ رہے ہیں۔
“گتھم گتھا ہونا” یعنی پوری طاقت سے اندھیرے کے خلاف مزاحمت کرنا، تاکہ روشنی کو پھیلایا جا سکے۔
اندھیروں کو مٹانے کی جدوجہد:
اقبال کا مقصد صرف روشنی پھیلانا نہیں، بلکہ تاریکی کو ختم کرنا بھی ہے۔
وہ اپنی ذات کی قربانی دے کر معاشرے میں روشنی اور علم کا چراغ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس میں یہ پیغام بھی چھپا ہے کہ ایک سچا رہنما یا عاشقِ حقیقی اپنی ذات کو جلا کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔
قربانی اور استقامت کا درس:
اقبال کے مطابق، ایک عظیم شخصیت وہی ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دے۔
شمع کی طرح جلنا، تکلیف اٹھانا، اور سیاہ رات سے مقابلہ کرنا، حقیقی ہمت اور صبر کی علامت ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ کامیابی اور روشنی قربانی مانگتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے روشنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں سب سے زیادہ مشکلات سہنی پڑتی ہیں، مگر ان کی قربانی ہی دنیا میں روشنی لاتی ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں اپنی زندگی کو شمع سے تشبیہ دیتے ہیں، جو خود جل کر روشنی دیتی ہے اور سیاہ رات (اندھیرے اور مایوسی) سے لڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے شمع کے آنسو اسی پر گرتے ہیں، ویسے ہی میں بھی اپنی تکالیف خود سہتا ہوں، مگر میرا مقصد روشنی پھیلانا اور اندھیروں کو مٹانا ہے۔ یہ شعر قربانی، جدوجہد، اور استقامت کی علامت ہے۔



