من ہمیں یک گل بدستارت زنم
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

من ہمیں یک گل بدستارت زنم
محشرے بر خواب سر شارت زنم
ترجمہ:
“اے ملتِ اسلامیہ! میں صرف یہی ایک پھول تیری دستار میں لگاتا ہوں، اس طرح تیری گہری نیند پر قیامت بپا کرتا ہوں۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں ملتِ اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے جگانے اور اسے اس کے کھوئے ہوئے مقام کی یاد دلانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اپنی فکری جدوجہد کو ایک نالے کے “پھول” سے تشبیہ دیتے ہیں، جسے وہ امت کی دستار میں سجاتے ہیں، تاکہ وہ جاگے اور اپنی عظمت کو بحال کرے۔
نالے کے پھول کو دستار میں لگانا:
اقبال کہتے ہیں کہ وہ اپنی فریاد (نالہ) کو ایک “پھول” کی صورت میں امتِ مسلمہ کی پگڑی میں سجاتے ہیں۔
“پھول” یہاں علامتی طور پر ان کے خیالات، فکر، اور اصلاحی پیغام کی نشانی ہے، جو وہ امت کے لیے ایک تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تمام تر محنت، فکری جدوجہد، اور عشقِ ملت کو امت کی زینت بنانا چاہتے ہیں۔
اپنے عشق کی تصدیق کا ثبوت دینا:
اقبال امت مسلمہ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی فکری کاوشوں کو اس کے احیا کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
وہ اپنے جذبات اور فکر کو کسی بلند و بانگ دعوے کی بجائے ایک نالے کے “پھول” کی صورت میں پیش کرتے ہیں، جو خاموش مگر گہرا اثر رکھتا ہے۔
ملت کی غفلت پر قیامت بپا کرنا:
اقبال امت کی غفلت اور سستی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اسے جھنجھوڑنے کا عزم رکھتے ہیں۔
“قیامت بپا کرنا” کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فکر اور پیغام کے ذریعے امت کو اتنا جھنجھوڑیں گے کہ وہ خوابِ غفلت سے جاگ اٹھے۔
یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اقبال چاہتے ہیں کہ امت دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرے اور بیدار ہو کر اپنے حقیقی مقام پر واپس آئے۔
امت کو جگانے اور وقار بحال کرنے کی کوشش:
اقبال کا مقصد امت مسلمہ کو اس کے ماضی کی شاندار تاریخ یاد دلانا اور اسے اپنے مقام پر واپس لانا ہے۔
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب تک امت جاگے گی نہیں، وہ اپنی کھوئی ہوئی عزت اور اقتدار دوبارہ حاصل نہیں کر سکتی۔
یہ شعر ایک تحریکِ بیداری کی علامت ہے، جو امت کو نیند سے اٹھا کر عملی جدوجہد کے لیے تیار کرتا ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کوئی قوم غفلت اور بے عملی میں مبتلا ہو جائے، تو اسے بیدار کرنا ضروری ہے۔ بڑے دعووں کے بجائے، ایک سچی اور خاموش جدوجہد زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے، جو دلوں میں اثر پیدا کرے اور لوگوں کو جگانے کا ذریعہ بنے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں اپنی فکری جدوجہد، امت مسلمہ سے اپنی محبت، اور اس کی بیداری کے عزم کو بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنی فریاد کو ایک نالے کے “پھول” کے طور پر امت کی دستار میں سجاتے ہیں، تاکہ اسے اس کے کھوئے ہوئے وقار کی یاد دلا سکیں اور اسے غفلت سے نکال کر ترقی اور عزت کے راستے پر گامزن کر سکیں۔ یہ شعر امت مسلمہ کے لیے بیداری، خود شناسی، اور عمل کا ایک زبردست پیغام ہے۔