چوں میرا صبح ازل حق آ فرید
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

چوں میرا صبح ازل حق آ فرید
نالہ در ابریشم عودم تپید
ترجمہ:
“جب اللہ تعالیٰ نے مجھے از صبحِ ازل پیدا کیا، تو میرے عُود کے ریشم میں نالے تڑپتے رہے، میں ہر لمحہ امت مسلمہ کے لیے فکر مند ہوں۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اپنی فکری تڑپ، درد، اور امت مسلمہ کے لیے اپنے گہرے احساسِ ذمہ داری کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اپنے وجود کو ایک ایسے ساز کی مانند بیان کرتے ہیں، جس کے ریشمی تاروں میں پیدا ہوتے ہی آہیں اور نالے تڑپنے لگے۔
از صبحِ ازل پیدا ہونا:
“صبحِ ازل” سے مراد وہ وقت ہے جب کائنات کی ابتدا ہوئی، یعنی جب اقبال کو تخلیق کیا گیا، تب سے ان کے اندر ایک مخصوص کیفیت اور فکر پیدا کر دی گئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فطری طور پر ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کے اندر امت کی فکر اور تڑپ پیدا کر دی گئی تھی۔
عود کے ریشمی تاروں میں نالے تڑپنا:
“عود” ایک موسیقی کا آلہ ہے، جو نرم اور دل کو چھو لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔
اقبال اپنے وجود کو ایک ایسے نازک اور حساس ساز سے تشبیہ دیتے ہیں، جس کے ریشمی تاروں سے صرف آہیں اور نالے بلند ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی زندگی ابتدا سے ہی امت کے غم، درد، اور فکر سے بھری ہوئی ہے۔
ہر لمحہ امت مسلمہ کے لیے فکر مند ہونا:
اقبال کہتے ہیں کہ ان کی پوری زندگی امت مسلمہ کی فکر اور بھلائی کے لیے وقف ہے۔
ان کے خیالات، جذبات، اور احساسات سب کچھ امت کے مستقبل، اس کے زوال اور اس کی بیداری کے گرد گھومتے ہیں۔
امت کے لیے درد اور قربانی کا جذبہ:
یہ شعر اقبال کے اس فلسفے کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ امت کی حالت پر غم زدہ رہتے ہیں اور اس کے عروج کے لیے بے چین رہتے ہیں۔
ان کے اندر ایک ایسی روحانی تڑپ موجود ہے جو انہیں آرام نہیں کرنے دیتی اور وہ اپنی زندگی کو امت کے لیے وقف کر چکے ہیں۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک سچا رہنما یا مفکر ہمیشہ اپنی قوم کے لیے بے چین رہتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو اپنی قوم کے فائدے اور بھلائی کے لیے قربان کر دیتا ہے اور اس کی سوچ ہر لمحہ اس کے لیے فکر مند رہتی ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں اپنی فطری حساسیت، امت مسلمہ کے لیے اپنی فکری تڑپ، اور اپنی زندگی کے مقصد کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب سے انہیں پیدا کیا گیا، ان کے اندر امت کے غم، آہیں، اور نالے رکھ دیے گئے، اور وہ ہر لمحہ اس کی بھلائی کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ یہ شعر قربانی، درد، اور ذمہ داری کے فلسفے کو اجاگر کرتا ہے۔