یک نفس فرصت ز سوز سینہ نیست
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

یک نفس فرصت ز سوز سینہ نیست
ہفتہ ام شرمندہ آ دینہ نیست
ترجمہ:
“مجھے ایک سانس کے لیے بھی سوزِ سینہ سے فرصت نہیں ہے، میرا ہفتہ جمعہ کے دن سے محروم ہے، جمعہ کی چھٹی نہیں ہے۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اپنی مسلسل جدوجہد، بے قراری، اور امت مسلمہ کے لیے اپنی فکری تڑپ کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کبھی سکون نصیب نہیں ہوتا، جیسے عام لوگوں کو ہفتے میں ایک دن آرام کا موقع ملتا ہے، مگر ان کی زندگی میں کوئی وقفہ یا راحت نہیں۔
سوزِ سینہ سے فرصت نہ ہونا:
اقبال کہتے ہیں کہ انہیں ایک لمحے کے لیے بھی سینے کی جلن سے سکون نہیں ملتا، یعنی وہ مسلسل کسی تڑپ یا درد میں مبتلا ہیں۔
یہ تڑپ دراصل ان کے اندر امت مسلمہ کے لیے موجود اضطراب اور احساسِ ذمہ داری کی علامت ہے، جس نے انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔
ہفتہ، جمعہ کے دن سے محروم:
عام طور پر جمعہ کا دن آرام، عبادت، اور سکون کے لیے مخصوص ہوتا ہے، مگر اقبال کہتے ہیں کہ ان کا ہفتہ اس دن سے بھی محروم ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں زندگی میں کبھی آرام یا فرصت نہیں ملتی، وہ مسلسل کسی فکری یا عملی کام میں مصروف رہتے ہیں۔
مسلسل جلنے اور جدوجہد کا استعارہ:
“میرا ہفتہ جمعہ کے دن سے محروم ہے” کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے پاس سکون اور فرصت کا کوئی دن نہیں۔
وہ اپنی زندگی کو ایک مسلسل جلنے اور جدوجہد کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں ان کے لیے کوئی وقفہ نہیں ہے۔
یہ علامت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ ایک سچا رہنما یا مفکر کبھی آرام نہیں کرتا، بلکہ اپنی قوم کے لیے مسلسل کام کرتا ہے۔
خدمتِ ملت اور خودی کا پیغام:
اقبال کا یہ شعر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جو لوگ بڑی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں، وہ عام لوگوں کی طرح آرام اور راحت نہیں کر سکتے۔
وہ امت کی فکری بیداری، ترقی، اور آزادی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں، اور ان کی زندگی میں کسی چھٹی یا آرام کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ جو لوگ بڑی کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی قوم کے لیے کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں، انہیں مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے اور سکون کی خواہش ترک کرنی پڑتی ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں اپنی فکری تڑپ اور انتھک جدوجہد کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک لمحے کے لیے بھی سینے کی جلن سے نجات نہیں ملتی، اور ان کی زندگی میں کوئی سکون یا آرام کا دن نہیں۔ یہ شعر ہمیں خودی، قربانی، اور مسلسل محنت کا درس دیتا ہے، تاکہ ہم اپنی زندگی کو ایک عظیم مقصد کے لیے وقف کر سکیں۔