جانم از صبر و سکون محروم بود
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

جانم از صبر و سکون محروم بود
ورد من یا حی یا قیوم بود
ترجمہ:
“میری جان صبر و سکون سے محروم ہے، میں ہر وقت ‘یا حی یا قیوم’ کا ورد کرتا رہتا تھا۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اپنی روحانی بے قراری اور اللہ سے قربت کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی بے چینی اور اضطراب کو اللہ کے ذکر کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صبر و سکون کی محرومی:
اقبال بیان کرتے ہیں کہ ان کی جان صبر و سکون سے محروم ہے، یعنی وہ کسی ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں جہاں انہیں اطمینان نصیب نہیں ہو رہا۔
یہ حالت کسی ذاتی پریشانی، روحانی جستجو، یا امت مسلمہ کے زوال پر غمگین ہونے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
‘یا حی یا قیوم’ کا ورد:
“یا حی” (اے ہمیشہ زندہ رہنے والے) اور “یا قیوم” (اے کائنات کو قائم رکھنے والے) اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں، جو اس کی قدرت اور دائمی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت ان الفاظ کا ورد کرتے ہیں، تاکہ انہیں اللہ کی رحمت اور سکون حاصل ہو۔
اس کا مطلب ہے کہ جب دنیاوی مشکلات بڑھ جائیں، تو اللہ کی یاد ہی وہ ذریعہ ہے جو دل کو قرار دے سکتا ہے۔
اللہ سے سکون طلب کرنا:
اقبال اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ سکون کسی مادی چیز میں نہیں بلکہ صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔
وہ اپنی بے چینی کا علاج مسلسل اللہ سے رجوع کرنے میں دیکھتے ہیں اور اسی میں اپنی نجات سمجھتے ہیں۔
ذکرِ الٰہی کی قوت:
اللہ کا ذکر انسان کو نہ صرف اندرونی سکون دیتا ہے بلکہ اسے دنیاوی فکروں سے آزاد بھی کرتا ہے۔
یہ ذکر اللہ کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے اور انسان کی روحانی مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ جب انسان پریشانی، بے چینی، یا غم میں مبتلا ہو، تو اسے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کا ذکر ہی دلوں کو سکون بخشتا ہے اور حقیقی راحت کا ذریعہ بنتا ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں بے قراری، صبر کی محرومی، اور اللہ کے ذکر کے ذریعے سکون حاصل کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ ‘یا حی یا قیوم’ کا ورد کرتے ہیں تاکہ انہیں روحانی اطمینان نصیب ہو۔ یہ شعر اللہ کی یاد اور اس پر بھروسے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔