پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

بعض خوانم قصہ پارینہ ات


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

 بعض خوانم قصہ پارینہ ات

 تازہ سازم داغہائے سینہ ات

ترجمہ:

“میں پھر پرانا قصہ پڑھتا ہوں تاکہ تیرے سینے کے داغ تازہ ہو جائیں۔”

تشریح:

یہ شعر ماضی کی عظمت، کھوئی ہوئی شان و شوکت، اور اس کے اثرات کو یاد کرنے پر مبنی ہے۔ اقبال اس قوم کی گزرے ہوئے شاندار دور کو یاد کر کے اس کی موجودہ حالت پر روشنی ڈالنا چاہتا ہے۔ تشریح کے مطابق:

پرانا قصہ پڑھنا:

اقبال کہتا ہے کہ وہ ماضی کے قصے کو دوبارہ پڑھتا ہے، یعنی وہ یاد دلاتا ہے کہ ایک وقت تھا جب عظمت اور شان و شوکت اپنے عروج پر تھی۔

“پرانا قصہ” دراصل تاریخ، کامیابیاں، اور وہ زمانہ ہے جب طاقت، وقار، اور عزت بلند مقام پر تھی۔

شان و شوکت اور حسن کا شباب:

اقبال یاد دلاتا ہے کہ کبھی یہ قوم یا شخصیت انتہائی باوقار، عظیم، اور حسن کے شباب پر تھی۔

اس وقت عزت، عظمت، اور کامیابی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، اور لوگ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

سینے کے داغ تازہ ہونا:

“داغ تازہ ہونے” کا مطلب ہے کہ پرانی یادوں کو دہرانے سے موجودہ زخم یا غم پھر سے تازہ ہو جائیں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال ماضی کی عظمت کو یاد دلا کر موجودہ زوال پر روشنی ڈالنا چاہتا ہے تاکہ دوبارہ بیداری پیدا ہو۔

یہ ایک جذباتی اپیل ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو پہچانو اور دوبارہ اپنی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش کرو۔

ماضی اور حال کے درمیان فرق:

اقبال ماضی اور حال کے درمیان ایک تضاد پیدا کر رہا ہے، جہاں ایک طرف عظمت، وقار، اور حسن تھا، جبکہ اب صرف زوال، تکلیف، اور داغ باقی رہ گئے ہیں۔

اس کا مقصد سننے والے کو جھنجھوڑنا اور ماضی کی مثال دے کر حال میں تبدیلی لانے کی ترغیب دینا ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح ہمیں سکھاتی ہے کہ ماضی کی عظمت کو یاد رکھنا اور اس سے سیکھنا ضروری ہے، تاکہ حال میں اپنی غلطیوں کا احساس ہو اور مستقبل میں بہتری لائی جا سکے۔

خلاصہ:

یہ شعر ماضی کی شان و شوکت اور حال کے زوال کے درمیان ایک گہری نسبت پیدا کرتا ہے۔ اقبال پرانی کامیابیوں اور عروج کے قصے دہرا کر موجودہ دکھ اور تکلیف کو نمایاں کرنا چاہتا ہے تاکہ بیداری پیدا ہو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button