ہم چو موج اتش تا پا میروی
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

ہم چو موج اتش تا پا میروی
تو جا بہر تماشہ میروی
ترجمہ
تو موج کی مانند خود سے تیز اگ کی طرح بھاگ رہی ہے تو کسی کے تماشے کو دیکھنے کے لیے جا رہی ہے
تشریح
یہ عبارت امت مسلمہ کو ان کی بے مقصد جلدبازی اور راستے سے بھٹکنے پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ شعر کے مطابق:
موج کی مانند خود سے آگے بڑھنا:
امت مسلمہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسے ایک لہر یا موج ہو، جو اپنی ہی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنی ذات اور مقصد کو پہچانے بغیر اندھا دھند آگے بڑھ رہی ہے۔
آگ کے شعلوں کی تشبیہ:
آگ کے شعلے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کا کوئی ٹھوس مقصد یا منزل نہیں ہوتی۔
یہاں امت کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کا یہ رویہ بھی اسی طرح کا ہے، جو انہیں بے سمت اور بے فائدہ راستوں پر لے جا رہا ہے۔
تماشہ دیکھنے کی طرف دوڑ:
شاعر نے سوال اٹھایا ہے کہ امت مسلمہ اس جلدبازی میں کس تماشے کو دیکھنے جا رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امت اپنی اصل منزل اور مقصد کو چھوڑ کر غیر ضروری چیزوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے، جو ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
غور و فکر کی دعوت:
یہ شعر امت مسلمہ کو اپنی حالت پر غور کرنے کی تلقین کرتی ہے۔
انہیں یاد دلایا جا رہا ہے کہ ان کی یہ دوڑ، جو بغیر مقصد کے ہے، انہیں اصل راستے سے بھٹکا سکتی ہے اور ان کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں جلدبازی اور بغیر مقصد کے دوڑنا ایک قوم یا فرد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اپنی منزل پہچانے اور اپنے اعمال کو درست سمت میں لے جائے۔
خلاصہ:
یہ عبارت امت مسلمہ کو ان کی بے مقصد جلدبازی پر غور کرنے اور اپنے اصل مقصد کی طرف پلٹنے کی تلقین کرتی ہے۔ امت کو چاہیے کہ وہ اپنی دوڑ کو منزل کی طرف رکھے، نہ کہ کسی بے مقصد تماشے کی طرف، تاکہ وہ اپنی عظمت اور کامیابی کو بحال کر سکے۔