عشق راہ داغے مثال لالہ بس
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

عشق راہ داغے مثال لالہ بس
در گریبانش گل یک نالہ بس
ترجمہ:
“اس کے لیے تو بس گلِ لالہ کی طرح ایک ہی داغ کافی ہے، اور اس کے گریباں میں نالہ کا بس ایک پھول ہی کافی ہے۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں عشق کی شدت، اس کے اظہار، اور اس کے نشان کو بیان کرتے ہیں۔ وہ لالہ کے پھول اور عاشق کے گریبان میں موجود نالے (آہوں) کی مشابہت دے کر عشق کے بنیادی فلسفے کو واضح کرتے ہیں۔
گلِ لالہ کے داغ کی علامت:
لالہ کا پھول اپنی سرخی کے ساتھ ایک نمایاں سیاہ داغ رکھتا ہے، جو اس کی پہچان ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ جیسے لالہ کے لیے ایک ہی داغ اس کے وجود کی علامت ہے، اسی طرح عشق کے لیے بھی ایک داغ ہی کافی ہے۔
“داغ” یہاں عشق کی قربانی، درد، اور عاشق کی پہچان کی علامت ہے۔
عشق کے لیے داغ کی اہمیت:
اقبال عشق کو قربانی اور درد سے مشروط کرتے ہیں، یعنی اگر کسی کے پاس عشق ہے، تو اس کے دل میں درد اور تڑپ کا داغ لازمی ہوگا۔
یہ داغ عشق کے سچے ہونے کی علامت ہے، کیونکہ عشق کبھی بغیر تکلیف، جدوجہد، اور قربانی کے مکمل نہیں ہوتا۔
گریبان میں نالے کا پھول:
شاعر کہتے ہیں کہ جیسے لالہ کے داغ کی پہچان ہوتی ہے، اسی طرح عاشق کے گریبان میں ایک نالے کا “پھول” ہی اس کے عشق کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔
“نالہ کا پھول” یعنی عاشق کی فریاد اور درد، جو اس کے عشق کی سچائی کو ثابت کرتا ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عشق کی شدت کو بیان کرنے کے لیے زیادہ الفاظ یا بڑے دعوے ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی سچا عاشق ہے، تو اس کی خاموش فریاد ہی سب کچھ بیان کر دے گی۔
عشق کی گہرائی اور سادگی:
اقبال اس شعر میں بتاتے ہیں کہ عشق ایک نازک مگر شدید جذبہ ہے، جس کی شناخت کسی بڑی علامت یا بلند آواز سے نہیں، بلکہ خاموشی میں موجود ایک چھوٹے نشان سے بھی ہو سکتی ہے۔
جیسے لالہ کے لیے اس کا داغ کافی ہے، اسی طرح ایک عاشق کے لیے اس کے دل کا درد ہی کافی ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ عشق کی سچائی اور شدت کو ثابت کرنے کے لیے بڑی باتوں یا اظہار کی ضرورت نہیں، بلکہ اگر عشق سچا ہو، تو اس کے چھوٹے سے نشان یا خاموشی میں موجود نالہ ہی اس کی گواہی کے لیے کافی ہوتا ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں عشق کی علامت، اس کی شدت، اور اس کے اظہار کے منفرد پہلو کو بیان کرتے ہیں۔ جیسے لالہ کے لیے ایک داغ کافی ہے، ویسے ہی عاشق کے لیے اس کا نالہ اور دل کا درد اس کے عشق کی سچائی کا واحد ثبوت ہوتا ہے۔ یہ شعر عشق کی گہرائی، سادگی، اور اس کے لازمی امتحان (داغ اور نالے) کو اجاگر کرتا ہے۔


