علامہ اقبال شاعریارمغان حجاز - رباعیات

ابليس کی مجلس شوری تشریح

Iblees Ki Majlis-e-Shura Explanation


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

ابلیس کی مجلس شوری

(Iblees Ki Majlis-e-Shura)

The Devil’s Conference

ابليس

یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دُوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمناؤں کا خوں

تعارف نظم:
جس طرح موجودہ دور میں ملکوں میں حکمرانی کے لیے انتخابات یا دیگر طریقوں سے قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ تشکیل دی جاتی ہے، جہاں مختلف معاملات پر بحث کے بعد فیصلے کیے جاتے ہیں، اسی انداز میں علامہ اقبال نے ایک خیالی اسمبلی کا تصور پیش کیا ہے۔ اس مجلس شوریٰ میں حکومتی پارٹی کا کردار شیطان کے ٹولے کا ہے اور اس کا سربراہ خود شیطان ہے۔ اس مجلس میں جو مسائل زیر بحث آتے ہیں، وہ آج کے دور سے متعلق ہیں، اور ان پر شیطان کے ساتھ پانچ ارکان اظہار خیال کرتے ہیں۔ آخر میں شیطان ہی فیصلہ کن رائے دیتا ہے۔

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے دنیا کی حقیقت اور اس کی فریب کاری کو آشکار کر رہے ہیں۔

ابلیس کہتا ہے کہ “یہ دنیا، جو مختلف عناصر کے امتزاج سے بنی ہے، ہمیشہ سے فریب کا کھیل رہی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیر اور کمتر دنیا ہے جو محض ایک تماشا ہے۔ لیکن اس کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ اس عظیم ہستیوں کی آرزوؤں کو روندتی ہے جو عرشِ اعلیٰ کے باسی ہیں،

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا جہانِ کاف و نون

اقبال اس شعر میں ابلیس کی غلط سوچ اور اس کی الزام تراشی کو نمایاں کر رہے ہیں۔

ابلیس طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ “وہی قدرت، وہی خالقِ کائنات، جس نے اپنے حکم ‘کن’ سے اس جہان کو تخلیق کیا، آج خود ہی اس کی بربادی پر آمادہ ہے۔” لیکن درحقیقت، یہ محض ابلیس کا فریب اور گمراہ کن سوچ ہے۔ وہ اپنی چالاکی سے انسان کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ دنیا کی تباہی کا ذمہ دار خود اس کا خالق ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تباہی ہمیشہ انسانی بداعمالیوں، ظلم، استحصال اور گمراہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔

یہ شعر انسانیت کو اس دھوکے سے خبردار کرنے کے لیے ہے کہ جب دنیا اپنے مقصدِ تخلیق کو بھلا کر باطل کے راستے پر چل پڑتی ہے تو قدرت کے قوانین حرکت میں آ جاتے ہیں، اور پھر بربادی مقدر بن جاتی ہے۔ لیکن اس کا ذمہ دار اللہ نہیں، بلکہ خود انسان ہوتا ہے جو اپنے اعمال سے اپنا انجام لکھتا ہے۔

میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے اپنے فتنہ انگیز کارناموں کو بیان کر رہے ہیں۔

ابلیس فخر سے کہتا ہے کہ “میں نے یورپ (فرنگ) کو بادشاہت اور مطلق العنان حکمرانی کا خواب دکھایا، جس کی وجہ سے وہاں ظلم و استبداد کو فروغ ملا۔ میں نے مذہب کے حقیقی اثرات کو ختم کر کے مسجد، مندر (دیر) اور گرجا (کلیسا) کی روحانی تاثیر کو زائل کر دیا، تاکہ لوگ دین کی اصل روح سے محروم ہو جائیں۔”

یہ شعر درحقیقت مغربی سامراجیت اور مادہ پرستی کی نشاندہی کر رہا ہے، جہاں طاقت اور دولت کے حصول کی ہوس نے روحانی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اقبال یہاں بتاتے ہیں کہ ابلیس نے دنیا کو ایسا دھوکہ دیا کہ لوگ سچائی سے دور ہو کر طاقت اور حکمرانی کے پیچھے بھاگنے لگے، اور مذہب کو محض ایک رسمی چیز بنا دیا گیا۔

میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ایک اور فتنہ انگیز حربے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

ابلیس فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ “میں نے غریبوں (ناداروں) کو تقدیر کا ایسا سبق سکھایا کہ وہ اپنی حالت کو بدلنے کے بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیں۔ میں نے انہیں یہ یقین دلا دیا کہ ان کی غربت اور بدحالی ازلی اور مقدر کا حصہ ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ دوسری طرف، میں نے امراء (منعم) کے دل میں دولت اور سرمایہ داری کا ایسا جنون پیدا کر دیا کہ وہ دولت کے حصول کو اپنی زندگی کا واحد مقصد سمجھنے لگے، اور بے رحمی سے دوسروں کا استحصال کرنے لگے۔”

یہ شعر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت ہونے والے ظلم و استحصال کی عکاسی کرتا ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ ابلیس نے دنیا میں طبقاتی فرق کو مزید گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جہاں ایک طرف غریبوں کو بے عملی اور قناعت پسندی میں مبتلا کر دیا گیا، اور دوسری طرف سرمایہ داروں کو دولت کی ہوس میں اندھا کر دیا گیا۔

کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں

اقبال اس شعر میں ابلیس کے پیدا کردہ فتنوں اور ان کی شدت کو بیان کر رہے ہیں۔

ابلیس فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ “وہ آگ، وہ شدت، وہ اضطراب جو میں نے دنیا میں پیدا کیا ہے، اسے بجھانا کسی کے بس میں نہیں۔ میری سازشوں اور چالوں نے انسانوں کے خیالات، ان کے جذبات، اور ان کے اعمال میں ایسی حرارت پیدا کر دی ہے کہ اب یہ آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ جس تحریک میں، جس ہنگامے میں میرا اندرونی جوش (سوزِ دروں) شامل ہو، اسے کون روک سکتا ہے؟”

یہ شعر دراصل دنیا میں پھیلنے والے فتنوں، جنگوں، اور انقلابات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو ابلیس کی سازشوں کی بدولت بے قابو ہو چکے ہیں۔ اقبال یہ بتا رہے ہیں کہ جب کوئی تحریک شیطانی جذبات، حسد، طمع، اور نفرت سے پروان چڑھتی ہے، تو اسے ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔

جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے اپنی چالوں کی پائیداری اور گہرے اثرات کو بیان کر رہے ہیں۔

ابلیس فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ “جس درخت (یعنی نظام، نظریہ یا سازش) کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا ہے، اسے کون گرا سکتا ہے؟ ہم نے اپنی محنت اور مسلسل سازشوں سے اس درخت کو سینچا، اسے طاقتور بنایا، اس کی جڑیں مضبوط کیں، تو اب کوئی بھی اسے اکھاڑنے یا زمین بوس کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔”

یہاں “نخلِ کہن” سے مراد وہ فرسودہ اور ظالمانہ نظام ہے جو صدیوں سے قائم ہے، اور جس کی بنیاد ظلم، استحصال، اور ملوکیت پر رکھی گئی ہے۔ اقبال اس شعر میں یہ واضح کر رہے ہیں کہ ابلیس نے جو شیطانی نظام کھڑا کیا ہے، اسے کمزور کرنا آسان نہیں، کیونکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور وہ مسلسل اس کی آبیاری کر رہا ہے۔

پہلا مشیر

اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے ابلیسی نظام کی مضبوطی اور اس کے اثرات کو واضح کر رہے ہیں۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلیسی نظام انتہائی مستحکم ہے۔ یہ اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ عوام کی غلامانہ ذہنیت کو مزید پختہ کر دیا ہے۔”

یہاں “ابلیسی نظام” سے مراد وہ نظام ہے جو ظلم، استحصال، ملوکیت، اور جبر پر مبنی ہے۔ اس نظام کی بدولت عام لوگ غلامی کے عادی ہو چکے ہیں، ان میں بغاوت یا آزادی کی خواہش باقی نہیں رہی۔ اقبال دراصل اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ جب کسی قوم پر طویل عرصے تک جبر و استحصال مسلط رہے، تو وہ ذہنی طور پر غلام بن جاتی ہے اور آزادی کے تصور سے بھی خوف کھانے لگتی ہے۔ یہی ابلیسی سازش ہے، جو لوگوں کو غلامی میں جکڑ کر ان کی خودی اور غیرت کو ختم کر دیتی ہے۔

ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے مظلوم اور غریب طبقے کی بدحالی اور ان کے مقدر پر طنز کر رہے ہیں۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “یہ غریب لوگ ہمیشہ سے سجدے میں گرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی فطرت ایسی بنا دی گئی ہے کہ وہ بس جھکے رہیں، ان کی نماز میں قیام (یعنی سربلندی) کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔”

یہاں “سجود” سے مراد صرف عبادت نہیں، بلکہ غلامانہ اطاعت اور سر تسلیم خم کرنا بھی ہے۔ اقبال اس حقیقت کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ ظالمانہ نظام نے غریبوں کو اتنا بے بس کر دیا ہے کہ وہ ہر حکم کے سامنے جھکنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ جدوجہد کرنے کے بجائے ہر حالت کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ “نمازِ بے قیام” دراصل اس بات کی علامت ہے کہ ان کے اندر بغاوت یا سربلندی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی، وہ سجدے سے سر اٹھانے کو تیار نہیں۔ یہ درحقیقت ابلیسی سازش کا ایک حصہ ہے، جو کمزور طبقے کو ہمیشہ دبا کر رکھتی ہے۔

آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے اس حقیقت کو اجاگر کر رہے ہیں کہ ابلیسی نظام نے انسانوں کے اندر خواہش اور بلند ارادوں کے جذبے کو یا تو مکمل ختم کر دیا ہے، یا اگر کہیں یہ خواہش پیدا ہو بھی جائے تو اسے پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “اس نظام میں کسی کے دل میں کوئی بلند آرزو جنم ہی نہیں لے سکتی، اور اگر کہیں یہ آرزو پیدا ہو بھی جائے تو یا تو وہ مر جاتی ہے یا کچی اور نامکمل رہتی ہے۔”

یہ شعر غلامی، استحصالی نظام اور ذہنی جمود کی عکاسی کرتا ہے۔ ابلیسی قوتوں نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ عوام کے اندر جدوجہد اور بغاوت کا کوئی جذبہ پنپ ہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی فرد بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کی کوشش کرے بھی، تو وہ خواب یا تو خوف، غربت اور محرومیوں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ دیتا ہے یا وہ ایک مبہم، غیر واضح آرزو کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ یہ درحقیقت اس ذہنی غلامی کا بیان ہے جو کسی قوم کو عمل، شعور اور ترقی سے روک دیتی ہے۔

ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے یہ واضح کر رہے ہیں کہ ابلیسی نظام نے مسلسل کوششوں سے صوفیوں اور ملاؤں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے، جو کبھی حریتِ فکر اور دین کی اصل روح کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “یہ ہماری مسلسل محنت کا نتیجہ ہے کہ آج کے صوفی اور ملا سب کے سب ملوکیت کے غلام بن چکے ہیں۔”

یہ شعر اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ مذہبی رہنما، جو کبھی روحانی آزادی اور حق پرستی کی علامت تھے، اب بادشاہوں اور حکمرانوں کے تابع ہو گئے ہیں۔ وہ دین کے اصل پیغام کو بھلا کر حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ اس کے نتیجے میں مذہب ایک استحصالی ہتھیار بن چکا ہے، جس کا مقصد عوام کو بے شعور رکھنا اور انہیں ملوکیت کے شکنجے میں جکڑے رکھنا ہے۔ اقبال یہاں اس منافقت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو دین کو طاقتور طبقے کے مفاد میں استعمال کرتی ہے۔

طبعِ مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علم کلام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے مشرق کی فکری جمود اور زوال پذیر سوچ پر طنز کر رہے ہیں۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “مشرق کی فطرت کے لیے یہی افیون موزوں تھی، ورنہ علمِ کلام کی حیثیت بھی قوالی سے کم نہ تھی۔”

یہاں افیون سے مراد وہ سحر انگیز نظریات ہیں جو مشرقی اقوام کو عملی جدوجہد سے دور رکھ کر بے عملی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ علمِ کلام، جو دین کی فلسفیانہ تشریح کا ایک ذریعہ تھا، اب محض بحث و مباحثہ تک محدود ہو چکا ہے۔ اسی طرح قوالی، جو دراصل روحانی بالیدگی کا ایک ذریعہ تھی، صرف جذباتی تسکین کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اقبال اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ مشرق میں دین اور فکر کو محض رسمی اور غیر عملی بنا دیا گیا ہے تاکہ عوام میں عمل اور مزاحمت کی روح پیدا نہ ہو۔ اس فکری جمود کا فائدہ استحصالی قوتوں کو پہنچا، جو چاہتے تھے کہ مشرقی اقوام بے عملی اور محض روایتی عقائد میں الجھی رہیں، تاکہ وہ ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “اگرچہ حج اور طواف کا ہنگامہ آج بھی قائم ہے، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے جب کہ مومن کی بے نیام تلوار کند ہو چکی ہے۔”

یہاں اقبال اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگرچہ مسلمان آج بھی ظاہری عبادات میں مصروف ہیں، حج اور طواف بدستور جاری ہے، لیکن ان میں وہ روح باقی نہیں رہی جو کبھی مسلمانوں کو دنیا میں ایک غالب قوت بناتی تھی۔ تیغِ بے نیام یعنی کھینچی ہوئی تلوار، مسلمانوں کے جرات مندانہ کردار، غیرتِ ایمانی، اور عملی قوت کی علامت تھی۔ مگر آج وہی تلوار کند ہو چکی ہے، یعنی مسلمانوں کی ہمت، عزیمت اور جہاد کی روح ختم ہو چکی ہے۔ وہ صرف رسمی عبادات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ان میں وہ عملی قوت باقی نہیں رہی جو دنیا پر اثر انداز ہو سکے۔ اس لیے اقبال واضح کر رہے ہیں کہ محض ظاہری عبادات کافی نہیں، جب تک کہ عمل، خودداری اور جرات کا وہ جذبہ زندہ نہ ہو جس نے ماضی میں مسلمانوں کو عظیم بنایا تھا۔

کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جاری سازشوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

پہلا مشیر کہتا ہے کہ “آج کے نئے عالمی نظام میں یہ حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ مردِ مسلم پر جہاد حرام ہے، مگر یہ حکم آخر کس کی مایوسی اور ناکامی کو جواز فراہم کر رہا ہے؟”

یہاں اقبال اس حقیقت کو اجاگر کر رہے ہیں کہ استعماری طاقتیں مسلمانوں کی بیداری اور ان کے جہادی جذبے سے خوفزدہ ہیں، اس لیے انہوں نے ایسا “نیا فرمان” جاری کیا ہے جو مسلمانوں کو کمزور کر دے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان صرف رسمی مذہبی عبادات تک محدود رہیں اور عملی جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں۔

نومیدی کا لفظ یہاں بہت معنی خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فرمان کن لوگوں کے حق میں آیا؟ مسلمانوں کے لیے یا ان کے دشمنوں کے لیے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعماری قوتوں کی سازش کا حصہ ہے، جو چاہتے ہیں کہ مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں اور کسی بھی انقلابی اقدام سے محروم ہو جائیں۔

اقبال اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ اس دھوکے کو سمجھیں اور اپنی حقیقی طاقت کو پہچانیں، کیونکہ جو قوم اپنی جدوجہد ترک کر دے، وہ تاریخ کے میدان سے مٹا دی جاتی ہے۔

دوسرا مشیر

خیر ہے سلطانیِ جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر

اقبال اس شعر میں دوسرے مشیر کے ذریعے جمہوری نظام کی حقیقت پر روشنی ڈال رہے ہیں۔

دوسرا مشیر کہتا ہے کہ “یہ جو آج سلطانیِ جمہور (جمہوری حکمرانی) کا شور مچایا جا رہا ہے، کیا یہ خیر ہے یا شر؟ تمہیں دنیا میں پیدا ہونے والے نئے فتنوں کی خبر نہیں ہے!”

یہاں اقبال اس حقیقت کو اجاگر کر رہے ہیں کہ جمہوری نظام بظاہر عوام کی حکمرانی کا تصور دیتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک نئی شکل کی استعماری غلامی ہے۔ مغربی جمہوریت کا مقصد عوام کو اقتدار دینا نہیں بلکہ چند مخصوص طبقات کو طاقتور بنانا ہے۔ جو طاقتیں پہلے بادشاہت کے ذریعے حکومت کرتی تھیں، اب وہی اقتدار جمہوریت کے نام پر حاصل کر رہی ہیں۔

“تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر” کا جملہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں جو نئی سازشیں چل رہی ہیں، وہ درحقیقت عوام کو مزید غلام بنانے کے لیے ہیں، نہ کہ ان کی آزادی کے لیے۔ مشیر اشارہ دے رہا ہے کہ یہ جمہوریت ایک نیا فتنہ ہے، جو عوام کو دھوکے میں رکھ کر حقیقی حکمرانوں کے تسلط کو مزید مضبوط کر رہی ہے۔

اقبال کے نزدیک یہ نام نہاد جمہوری نظام بھی دراصل ایک چال ہے، جس میں عوام کو آزادی کا جھانسا دے کر اصل طاقت چند سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے ہاتھ میں مرکوز کر دی گئی ہے۔

پہلا مشیر

ہوں ! مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو ، کیا اس سے خطر

اقبال اس شعر میں پہلے مشیر کے ذریعے جمہوری نظام کی حقیقت اور اس کے خطرات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پہلا مشیر، جو جمہوریت کی حقیقت سے آگاہ ہے، دوسرے مشیر کے خدشات کو سن کر کہتا ہے:

“ہاں! مگر میری دنیا کو پرکھنے والی نگاہ مجھے بتاتی ہے کہ اگر بادشاہت کو جمہوریت کے پردے میں چھپا دیا جائے، تو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔”

یہاں اقبال اس نکتے کو واضح کر رہے ہیں کہ جدید جمہوریت درحقیقت بادشاہت کی ایک نئی شکل ہے، جہاں اقتدار اب بھی چند لوگوں کے ہاتھ میں رہتا ہے، مگر عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ خود حکمرانی کر رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ہونے والے انتخابات اور پارلیمانی نظام درحقیقت عوام کو دھوکہ دینے کا ایک ذریعہ ہیں۔

“جو ملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر” کا مطلب یہ ہے کہ اگر اصل حکمرانی اب بھی انھی مخصوص طبقات کے ہاتھ میں ہے جو پہلے بادشاہوں کی صورت میں حکومت کرتے تھے، تو پھر اس نئے نظام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے ابلیسی نظام کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، بلکہ یہ اور بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گا کیونکہ لوگ اسے اپنی آزادی سمجھیں گے۔

اقبال یہاں جمہوریت کو محض ایک نقاب قرار دے رہے ہیں، جو درحقیقت عوام کو قابو میں رکھنے کا ایک نیا طریقہ ہے، تاکہ وہ غلامی کا احساس تک نہ کر سکیں۔

ہم نے خودشاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خودنِگر

اقبال اس شعر میں جمہوریت کے اصل چہرے کو بے نقاب کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ یہ درحقیقت خود مختاری (خودشاہی) کی ہی ایک نئی شکل ہے، جسے جمہوریت کے لباس میں لپیٹ کر پیش کیا گیا ہے۔

ابلیس کے مشیر کہتے ہیں:

“ہم نے بادشاہت کو جمہوریت کی شکل میں پیش کیا ہے، تاکہ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ وہ آزاد ہیں، حالانکہ اقتدار اب بھی انھی قوتوں کے ہاتھ میں ہے جو پہلے بادشاہت کے نام پر حکمرانی کرتی تھیں۔”

یہاں “جمہوری لباس” سے مراد وہ سیاسی نظام ہے جو عوام کو آزادی اور اختیار کا دھوکہ دیتا ہے، مگر درحقیقت اقتدار چند سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور طاقتور طبقات کے پاس ہی رہتا ہے۔ یہ عوام کو محض ایک سراب دکھایا جاتا ہے کہ وہ خود فیصلے کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ اب بھی غلام ہی رہتے ہیں۔

دوسری طرف “جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر” کا مفہوم یہ ہے کہ جیسے ہی انسان نے اپنی خودی اور بیداری کی طرف قدم بڑھایا، تو ابلیسی قوتوں نے ایک نیا نظام متعارف کروا دیا تاکہ اس کی آزادی کو ایک نئے انداز سے قابو میں رکھا جا سکے۔ جمہوریت کے نام پر درحقیقت ایک نیا استحصالی نظام کھڑا کر دیا گیا، تاکہ عوام یہ سمجھیں کہ وہ خود مختار ہیں، جبکہ حقیقی طاقت اب بھی انھی قوتوں کے پاس ہے جو پہلے بادشاہت کے ذریعے حکومت کرتی تھیں۔

یہ شعر دراصل جدید جمہوری نظام پر ایک سخت تنقید ہے، جو عوام کو غلامی کا احساس دیے بغیر ان کا استحصال کرتا ہے اور طاقتور طبقوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر

اقبال اس شعر میں حکمرانی کے حقیقی نظام پر روشنی ڈال رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ بادشاہت یا حکمرانی کسی ایک فرد، بادشاہ یا سلطان کے وجود پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم نظام اور طاقتور عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔

ابلیس کے مشیر کہتے ہیں:

“حکمرانی کا نظام محض کسی بادشاہ یا حکمران کے وجود سے وابستہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل نظام ہوتا ہے، جو اقتدار کو مستحکم اور قائم رکھتا ہے۔”

یہاں “کاروبارِ شہر یاری” کا مطلب حکمرانی کا نظام ہے، جو ایک منظم اسٹیبلشمنٹ، سیاسی قوتوں، طاقتور طبقوں، سرمایہ داروں، اور اہل اقتدار کے ایک نیٹ ورک پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ صرف کسی ایک بادشاہ یا حکمران کی ذات پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے موجود نظام ہی اصل طاقت رکھتا ہے۔

“یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر” کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک بادشاہ یا حکمران ختم ہو جائے تو بھی یہ نظام باقی رہتا ہے کیونکہ اقتدار کا اصل سرچشمہ وہ طاقتور عناصر ہیں جو پس پردہ حکومت کرتے ہیں، چاہے وہ بیوروکریسی ہو، سرمایہ داری نظام ہو، یا خفیہ طاقتیں جو دنیا کے معاملات کو چلاتی ہیں۔

یہ شعر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ حقیقی حکمرانی صرف ظاہری بادشاہوں یا حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ پس پردہ چلنے والی طاقتیں اور ادارے ہی اصل اقتدار رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ یا حکمران بدل بھی جائیں، نظام وہی رہتا ہے، کیونکہ اس کا اصل کنٹرول انھی طاقتوں کے پاس ہوتا ہے جو نظر نہیں آتیں مگر حکمرانی کے فیصلے کرتی ہیں۔

مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں ، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

اقبال اس شعر میں حقیقی حکمرانوں کی فطرت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چاہے کوئی اسلامی ملت کی مجلس ہو یا بادشاہ پرویز جیسے جابروں کے دربار، حکمران وہی ہوتا ہے جس کی نظر دوسروں کے وسائل پر ہو، جو دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور ان کے وسائل لوٹنے کی خواہش رکھتا ہو۔

ابلیس کے مشیر کہتے ہیں:

“چاہے یہ کوئی اسلامی مجلس ہو یا بادشاہوں کا دربار، اصل حکمران وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے مال و دولت پر نظریں جمائے رکھے اور ان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے عزائم رکھے۔”

یہاں “مجلسِ ملت” کا مطلب ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جو بظاہر ملتِ اسلامیہ کے نام پر قائم ہو، اور “پرویز کا دربار” سے مراد ظالمانہ بادشاہی نظام ہے۔

“ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر” کا مطلب یہ ہے کہ سچی حکمرانی صرف طاقت سے نہیں آتی بلکہ دوسروں کی دولت اور وسائل پر قبضہ کرنے کی صلاحیت بھی طاقتور حکمران بننے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔

یہ شعر نوآبادیاتی اور سامراجی حکمرانوں کی ذہنیت کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جو دوسروں کی زمینوں، وسائل، اور دولت پر قبضہ کرکے اپنی حکومت کو مستحکم رکھتے ہیں۔ یہی حکمرانی کا وہ نظام ہے جو ابلیسی فکر کے تحت صدیوں سے چل رہا ہے، اور جس میں ظلم و جبر، استحصال، اور دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرنے کا نظریہ بنیادی اصول مانا جاتا ہے۔

تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر

اقبال اس شعر میں مغرب کے جمہوری نظام کی حقیقت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بظاہر مغربی جمہوریت روشن اور خوشنما نظر آتی ہے، لیکن اس کا اندرونی نظام ظالمانہ اور استحصالی ہے، جو دراصل چنگیز خان کے وحشیانہ طرزِ حکومت سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔

ابلیس کے مشیر کہتے ہیں:

“کیا تم نے مغرب کے جمہوری نظام کو نہیں دیکھا؟ اس کا چہرہ تو بہت روشن اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندرون میں وہی چنگیز خان کی ظلمت، وحشت اور خونریزی موجود ہے۔”

یہاں “چہرہ روشن” کا مطلب ہے کہ مغربی جمہوریت آزادی، انسانی حقوق اور برابری کے حسین نعرے لگاتی ہے، لیکن “اندرون چنگیز سے تاریک تر” کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اصل مقاصد طاقت، استحصال اور نوآبادیاتی قبضے پر مبنی ہیں۔

اقبال اشارہ کر رہے ہیں کہ مغربی جمہوریت کا ظاہری نظام تو عوامی فلاح و بہبود کا دعویدار ہے، لیکن حقیقت میں وہ کمزور اقوام کو غلام بنانے، ان کا استحصال کرنے، اور انہیں سیاسی، معاشی اور فکری طور پر محکوم رکھنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔

یہ شعر آج کے دور میں بھی عالمی سیاست، طاقتور اقوام کے استحصالی رویے، اور سرمایہ دارانہ نظام پر بھرپور تنقید کرتا ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قابض ہو کر اپنے مفادات پورے کرتا ہے۔

تیسرا مشیر

روحِ سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب

یہ شعر ابلیس کے مشیر کی طرف سے ایک فکر مند سوال ہے، جو مغربی سیاست اور یہودی چالاکیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔

مشیر کہتا ہے کہ اگر روحِ سلطانی (اقتدار اور حکمرانی کا اصول) باقی رہے، تو پھر کسی قسم کی پریشانی یا اضطراب کی ضرورت نہیں۔ یعنی جب تک طاقت اور حکمرانی کا نظام قائم ہے، تب تک کنٹرول برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہودیوں کی چالاکی اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

یہاں “یہودی کی شرارت” سے مراد وہ عالمی سیاسی اور معاشی چالیں ہیں، جو یہودی بینکنگ سسٹم، سرمایہ دارانہ نظام، اور خفیہ سازشوں کے ذریعے پوری دنیا پر مسلط کر رہے تھے۔

اقبال دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہودیوں نے مغربی طاقتوں کو اپنے قابو میں لے لیا ہے، وہی ان کے مالیاتی نظام کے مالک ہیں، وہی عالمی سیاست میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور یہی وہ فتنہ ہے جو ابلیس کے مشیروں کو بھی پریشان کر رہا ہے۔

یہ شعر یہودیوں کی چالاک حکمتِ عملی اور عالمی سیاست میں ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر روشنی ڈالتا ہے، جس کے بارے میں ابلیس کے مشیر سوچ رہے ہیں کہ آیا وہ اسے کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

وہ کلیمِ بے تجلی! وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

یہ شعر ابلیس کے مشیر کی طرف سے ایک ایسے مفکر، فلسفی یا رہنما پر طنز ہے، جو بظاہر راہِ نجات دکھانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن درحقیقت ہدایت سے خالی ہے۔

“وہ کلیمِ بے تجلی” کہہ کر مشیر حضرت موسیٰؑ کی ایک ناقص نقل کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی وہ شخص جو خود کو موسیٰؑ جیسا رہنما سمجھتا ہے، لیکن اسے کوہِ طور کی وہ روشنی اور تجلی نصیب نہیں ہوئی جو حقیقی ہدایت کا ذریعہ تھی۔

“وہ مسیحِ بے صلیب” کا مطلب ہے کہ وہ شخص خود کو عیسٰیؑ جیسا نجات دہندہ کہتا ہے، مگر اس نے قربانی اور ایثار کی راہ اختیار نہیں کی۔ مسیحؑ کا اصل مقام ان کی قربانی، ایثار اور سچائی میں تھا، مگر یہ شخص محض الفاظ کا کھیل کھیلتا ہے۔

“نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب” کا مفہوم یہ ہے کہ وہ شخص نبی تو نہیں، لیکن اس کے ہاتھ میں ایک کتاب ضرور ہے۔ اس سے مراد وہ بے روح فلسفے اور نظریات ہیں، جو وحی اور الہام کے بغیر صرف انسانی دماغ کی اختراع ہوتے ہیں۔ وہ کسی آسمانی پیغام کے بغیر بھی اپنے خیالات کو ایک نئی “کتاب” کی شکل میں پیش کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کر سکے۔

اقبال یہاں مغربی فلسفیوں، سکالرز اور نام نہاد مصلحین پر تنقید کر رہے ہیں، جو بغیر وحی و الہام کے، محض عقل کے زور پر نئی تہذیب کے نجات دہندہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ان کے نظریات میں وہ حقیقی روحانی روشنی نہیں جو نبیوں کو حاصل تھی۔ یہ ایسے بے جان نظریات ہیں، جو قوموں کو گمراہ تو کر سکتے ہیں، مگر ان کی حقیقی رہنمائی نہیں کر سکتے۔

کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب

یہ شعر ابلیس کے مشیر کی جانب سے کافر (مغربی اقوام) کی بصیرت پر تبصرہ ہے، جو دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

“کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز” کا مفہوم یہ ہے کہ مغربی اقوام کی دور اندیشی اور ان کا تجزیہ کرنے کا انداز اتنا گہرا ہے کہ وہ چھپی ہوئی حقیقتوں سے بھی پردہ اٹھا دیتی ہیں۔ یہ قومیں محض سطحی سوچ پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن یہ بصیرت اخلاقی یا روحانی بنیادوں پر نہیں، بلکہ مادی ترقی اور دنیاوی غلبے کے اصولوں پر قائم ہے۔

“مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب” کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کی یہ فکری بصیرت اور سائنسی ترقی دنیا کی تمام اقوام کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ مغرب کے اس علمی اور فکری غلبے نے مشرقی اقوام کو ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی پہچان کھو رہی ہیں بلکہ مغربی تہذیب کے زیرِ اثر اپنی اقدار اور روایات سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہیں۔

اقبال یہاں مغربی تہذیب کے فکری غلبے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جو دنیا کی تمام اقوام کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ یہ تہذیب ظاہری طور پر ترقی یافتہ اور روشن خیال نظر آتی ہے، مگر اس کی گہری بصیرت مادی ترقی تک محدود ہے، روحانی اقدار سے عاری ہے اور مشرقی تہذیب کو کمزور کر رہی ہے۔

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب

یہ شعر ابلیس کے مشیر کی فکری بےچینی کو ظاہر کرتا ہے، جو دنیا میں ہونے والی بڑی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں پر فکر مند ہے۔

“اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد” کا مطلب ہے کہ یہ دنیا میں سب سے بڑی بد نظمی اور فساد کی علامت ہے کہ جو نظام صدیوں سے مستحکم تھا، وہ اب ٹوٹنے کے قریب ہے۔ یہاں “طبیعت کا فساد” دراصل سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کے بگاڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو روایتی حکمرانی اور غلامی کے ڈھانچے کو کمزور کر رہا ہے۔

“توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب” یعنی محکوم عوام نے اب اپنے آقاؤں (بادشاہوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں) کے اقتدار کو چیلنج کر دیا ہے۔ وہ جو ہمیشہ غلامی میں جکڑے ہوئے تھے، اب وہ اپنی زنجیریں توڑ رہے ہیں۔ اس سے مراد عوامی بغاوتیں، انقلابات، جمہوریت کی تحریکیں اور جاگیردارانہ و استحصالی نظام کے خاتمے کی کوششیں ہیں۔

یہ شعر دراصل مغربی انقلابات اور جمہوری بیداری کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جہاں لوگوں نے غلامی کے خلاف آواز اٹھا کر آقاؤں کے مضبوط قلعے ہلا دیے۔ اقبال یہاں سماجی انصاف اور خودداری کے بڑھتے رجحان کو بیان کر رہے ہیں، جس نے ابلیس کے نظام کے استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

چوتھا مشیر

توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آلِ سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب

اقبال اس شعر میں چوتھے مشیر کے ذریعے مغربی تہذیب کے زوال اور اس کی بنیادوں میں چھپے تضادات کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
چوتھا مشیر تیسرے مشیر کی پریشانی اور بے قراری کو دیکھ کر کہتا ہے:
“تمہاری فکر بجا ہے، مگر اس کا توڑ ہم نے رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دکھا دیا ہے۔ ہم نے آلِ سیزر کو دوبارہ سیزر کا خواب دکھایا ہے، یعنی ہم نے ان کے ذہنوں میں پرانی سلطنت اور طاقت کے خواب بسا دیے ہیں تاکہ وہ اسی میں الجھے رہیں اور ہمارے منصوبوں سے بے خبر رہیں۔”

علامہ اقبال یہاں بتاتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مغرب کی حکمرانی بھی دراصل قدیم رومی سلطنت کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اقبال کے خیال میں شیطانی قوتیں مغربی طاقتوں کو پرانی سلطنت کے خواب دکھا کر قابو میں رکھ رہی ہیں تاکہ وہ روحانیت اور حقیقی ترقی کی طرف نہ جا سکیں۔

کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب

یہ شعر مغربی دنیا میں جاری ہنگامہ خیزی اور عدم استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔

“کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا” سے مراد یورپ (خصوصاً اٹلی اور فرانس) میں چلنے والے سیاسی اور سماجی طوفان ہیں۔ بحرِ روم کا علاقہ تاریخی طور پر بڑی سلطنتوں اور انقلابات کا مرکز رہا ہے، اور یہاں کی سیاست ہمیشہ تغیر پذیر رہی ہے۔

“گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب” یعنی کبھی یہ خطہ طاقت اور غرور میں مغرور ہوتا ہے، اور کبھی شکست خوردہ اور بے بس نظر آتا ہے۔ صنوبر بلندی اور شان و شوکت کی علامت ہے، جبکہ رباب کی نالہ و فریاد کمزوری اور شکست کا اظہار ہے۔

یہاں مغربی اقوام کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کی داخلی کشمکش کا ذکر ہے، جو کبھی اپنی طاقت پر نازاں ہوتی ہیں، تو کبھی اندرونی انتشار اور بدامنی کی زد میں آ جاتی ہیں۔ یہ شعر دراصل مغربی تہذیب کی ناپائیداری اور تضادات کو نمایاں کرتا ہے، جہاں طاقت اور زوال کا چکر مسلسل جاری ہے۔

تیسرا مشیر

میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب

یہ شعر افراتفری، سیاسی چالاکیوں اور مغربی سیاست کے راز کھلنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

“میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں” سے مراد یہ ہے کہ شاعر (یا یہاں پر تیسرا مشیر) کسی شخصیت یا نظریے کی دور اندیشی اور حکمت پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی پیش بینی درست ثابت نہیں ہوگی یا وہ مستقبل کے اثرات کو صحیح طرح نہیں سمجھ پایا۔

“جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب” یعنی جس نے مغربی سیاست کے اصل چہرے کو سب کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ مغربی طاقتیں ہمیشہ چالاکی اور فریب کاری سے کام لیتی رہی ہیں، لیکن اب ان کی حقیقت دنیا پر آشکار ہو رہی ہے۔

یہ شعر دراصل مغربی سامراج اور اس کی استحصالی پالیسیوں کے کھل کر سامنے آنے کا ذکر کرتا ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ اب مغربی طاقتوں کی منافقت اور دھوکہ دہی مزید نہیں چھپ سکتی، لیکن وہ اس کے نتائج کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں۔

پانچواں مشیر

(ابلیس کو مخاطب کر کے)

اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار
تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے ابلیس کی طاقت اور اس کے اثر و رسوخ کو نمایاں کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر، ابلیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کا نظام تیرے سوزِ نفس (یعنی تیرے مکر و فریب، چالاکیوں اور ذہنی اثرات) کی بدولت قائم ہے۔ تُو نے اپنی فتنہ انگیزیوں اور چالبازیوں سے انسانی معاشروں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور تُو ہی اس دنیا کے معاملات کو اپنے مفاد کے مطابق چلا رہا ہے۔ تیرے اندر یہ صلاحیت ہے کہ جب چاہے حقائق کو چھپا دے اور جب چاہے انہیں بے نقاب کر دے، یعنی تُو لوگوں کی سوچ، شعور، اور نظریات کو اپنے قابو میں رکھتا ہے۔

تُو نے اپنے مکروہ منصوبوں سے انسانی ذہن کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ حقیقت اور فریب میں تمیز نہیں کر پاتے۔ تیری سازشیں اس قدر گہری اور پیچیدہ ہیں کہ لوگ تیری چالوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بے خبر رہتے ہیں۔ تُو نے انسانی معاشروں میں ایسی فکری اور نظریاتی الجھنیں پیدا کر دی ہیں کہ وہ تیری مرضی کے مطابق سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔

اقبال کے مطابق، ابلیس کی یہی چالاکیاں اور فتنہ انگیزیاں دنیا کے بگاڑ کی اصل جڑ ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے لیے قوموں کو آپس میں لڑاتا ہے، ان کے درمیان نفرت اور تعصب پیدا کرتا ہے، اور انہیں ایسی راہوں پر ڈال دیتا ہے جو تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس طرح، ابلیس نے دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال رکھا ہے اور اس کے سوزِ نفس نے انسانیت کو فکری غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔

آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلہَ جنت تری تعلیم سے دانائے کار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے ابلیس کی فتنہ انگیزی اور اس کے اثرات کو بیان کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر، ابلیس کی طاقت اور اس کی اثراندازی کو سراہتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تیرے فریب اور مکر کی حرارت ہی ہے جس نے دنیا کو سوز و ساز (یعنی جدوجہد، کشمکش، اور فساد) کا میدان بنا رکھا ہے۔ تیرے پیدا کردہ فکری انتشار اور نظریاتی جنگوں کی وجہ سے دنیا میں ہر طرف بے چینی اور اضطراب ہے۔ تُو نے انسان کے دل و دماغ میں ایسی خواہشات اور لالچ پیدا کیے ہیں جن کی وجہ سے وہ مسلسل دوڑ دھوپ اور جنگ و جدل میں مبتلا ہے۔ تُو نے معاشرتی نظام کو اس طرح الجھا دیا ہے کہ ہر فرد اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے حقوق پامال کرنے کو تیار ہے۔

مزید برآں، تُو نے جنت کے معصوم انسان کو اپنی تعلیمات اور مکاری سے اس قدر گمراہ کر دیا ہے کہ وہ اب دانائے کار (یعنی چالاک، ہوشیار اور مکاری میں ماہر) بن چکا ہے۔ وہ جو کبھی سیدھے سادھے اور معصوم تھے، اب تیری چالوں کی بدولت چالباز اور موقع پرست بن گئے ہیں۔ تُو نے ان کے دلوں میں نفرت، حسد، اور خودغرضی بھر دی ہے اور ان کی سادگی اور معصومیت کو مکارانہ حکمت عملیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

اقبال کے مطابق، ابلیس نے انسانیت کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے جھوٹ، فریب، اور مکاری کو ہنر سمجھنے لگے ہیں۔ ابلیس نے ان کے نظریات اور خیالات کو اس طرح موڑ دیا ہے کہ وہ حق اور باطل میں فرق کرنے سے قاصر ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر قسم کے اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہیں۔ اس طرح ابلیس نے اپنے مکر و فریب سے دنیا کو فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔

تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے ابلیس کی فطانت اور انسان کی فطرت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر ابلیس کی ذہانت اور اس کی انسان پر گہری نظر کو سراہتے ہوئے کہتا ہے کہ فطرتِ آدم (یعنی انسان کی جبلت، اس کی کمزوریاں اور اس کے پوشیدہ رجحانات) کو تیرے جتنا کوئی اور نہیں جانتا۔ تُو انسان کی فطرت، اس کی خواہشات، اس کے خوف، اس کی لالچ، اور اس کے جذبات کی پیچیدگیوں کو اس قدر گہرائی سے سمجھتا ہے کہ تُو اس کی ہر کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ تُو اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے راہِ حق سے بھٹکاتا ہے اور اس کی نفسانی خواہشات کو ابھار کر اسے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔

مزید برآں، تُو نے انسانوں کے ذہنوں میں ایسی غلط فہمیاں اور فکری الجھنیں پیدا کی ہیں کہ وہ سادہ لوح بندے جو اللہ کو اپنا رب، پروردگار، اور سب سے بڑا خیر خواہ مانتے ہیں، حقیقت میں تیرے فریب میں گرفتار ہیں۔ تُو نے ان کے عقائد کو اس طرح مسخ کر دیا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ، حق اور باطل میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ تُو نے انہیں اپنے مکر و فریب سے اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نیکی اور بھلائی کے راستے پر ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ تیرے بچھائے ہوئے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اقبال کے مطابق، ابلیس کی سب سے بڑی چال یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو اس قدر دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو بھی نیکی سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ رب کی رضا حاصل کر رہے ہیں، جبکہ درحقیقت وہ ابلیس کے وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اس طرح ابلیس نے اپنی مکاری اور عیاری سے انسان کی فطرت کو اس کے خلاف استعمال کیا ہے۔

کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے ابلیس کے غرور اور اس کے اثر و رسوخ کو اجاگر کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر ابلیس کی عظمت اور اس کی غیرت (یعنی اس کا تکبر اور خودسری) کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ فرشتے جن کا کام صرف اللہ کی تقدیس، تسبیح، اور طواف کرنا تھا، یعنی جو ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا اور عبادت میں مشغول رہتے تھے، وہ بھی تیری غیرت کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے سرنگوں اور شرمسار ہو گئے۔

یہاں ابلیس کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب اس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابلیس کا تکبر اور غرور اس قدر شدید تھا کہ اس نے اللہ کے حکم کے باوجود آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور اپنے آپ کو برتر قرار دیا۔ اس کی اس نافرمانی اور خودسری کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہو گیا، لیکن اس نے اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور عہد کیا کہ وہ انسانوں کو راہِ حق سے بھٹکاتا رہے گا۔

مزید برآں، پانچواں مشیر اس بات پر زور دیتا ہے کہ ابلیس کی غیرت اور خودسری اتنی طاقتور تھی کہ اس نے فرشتوں کو بھی حیرت اور شرمندگی میں مبتلا کر دیا۔ فرشتے جو معصوم اور بے گناہ مخلوق ہیں، جو صرف عبادت اور اطاعت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، وہ بھی ابلیس کے اس انکار پر دنگ رہ گئے اور اس کی اس جرات و بے باکی کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔

اقبال یہاں اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ ابلیس کی غیرت دراصل اس کی خود پسندی، تکبر، اور سرکشی کی انتہا ہے، جس نے نہ صرف اسے اللہ کے قریب سے دور کیا بلکہ اسے انسانوں کا ازلی دشمن بھی بنا دیا۔ ابلیس نے اپنے اسی غرور اور غیرت کی بدولت انسانوں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگانے کا عزم کیا، اور یہی اس کی سب سے بڑی فتح ہے۔

گرچہ ہیں تیرے مرید، افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے ابلیس کے شکوک و شبہات کو سامنے لاتے ہیں۔

پانچواں مشیر ابلیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بے شک افرنگ (یعنی مغرب) کے تمام ساحر (یعنی سیاستدان، مفکرین، اور فلسفی) تیرے پیروکار ہیں اور تیرے شیطانی نظریات کے مطابق کام کر رہے ہیں، لیکن اب مجھے ان کی فراست اور حکمت پر پہلے جیسا اعتبار نہیں رہا۔

یہاں “ساحر” سے مراد وہ مغربی مفکرین، سیاستدان، اور لیڈران ہیں جو ابلیسی نظام کے تحت دنیا میں انتشار، فتنہ و فساد، اور مادی پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے علم و دانش، فلسفے، اور سیاست کے ذریعے دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں اور انسانیت کو روحانی اقدار سے دور کر رہے ہیں۔ اقبال اس شعر کے ذریعے مغربی تہذیب کی چمک دمک اور اس کے پسِ پردہ چھپے کھوکھلے پن کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اگرچہ یہ مغربی ساحر ابلیس کے پیروکار ہیں اور اس کے منصوبوں کو کامیاب بنا رہے ہیں، لیکن اب ان میں وہ پہلی جیسی فراست اور حکمت باقی نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مادی ترقی اور دنیاوی طاقت کے نشے میں اتنے مست ہو چکے ہیں کہ انہیں حقیقت کی پہچان نہیں رہی۔ وہ صرف عارضی فائدے اور طاقت کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے فیصلے وقتی اور سطحی ہو گئے ہیں۔

مزید برآں، پانچواں مشیر اس بات پر بھی فکر مند ہے کہ اگر یہ مغربی مفکرین اسی طرح خود غرضی اور مادی پرستی میں ڈوبے رہے تو ابلیسی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ ان کی دانشمندی میں گہرائی اور بصیرت کی کمی آ گئی ہے۔

اقبال اس شعر میں نہ صرف مغربی تہذیب کی فکری گمراہی کو اجاگر کر رہے ہیں بلکہ اس بات کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں کہ شیطانی نظام کی بنیاد جھوٹ اور فریب پر ہے، جو دیرپا نہیں ہو سکتی۔

وہ یہودی فتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تاتار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے مغربی تہذیب میں یہودی سازشوں اور ان کے گہرے اثرات کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر ابلیس کو خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ یہودی جو فتنہ و فساد پھیلانے میں ماہر ہیں، دراصل روحِ مزدک کا بروز ہیں۔ مزدک ایک قدیم ایرانی مفکر تھا جس نے الحاد اور اشتراکیت کے نظریات پیش کیے تھے، جنہوں نے معاشرتی نظام کو درہم برہم کر دیا تھا۔ یہاں اقبال اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہودی قوم نے بھی مزدک کی طرح اپنے نظریات سے دنیا میں فکری انتشار اور بے چینی پیدا کی ہے۔

مزید برآں، پانچواں مشیر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ یہودیوں کے جنون اور سازشوں کے سبب ہر قبا (یعنی ہر تہذیب اور قوم) تاتاری وحشت اور بربریت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاتار سے مراد وہ قومیں ہیں جنہوں نے ماضی میں دنیا پر خوفناک حملے کیے تھے اور تہذیبوں کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اس شعر میں اقبال یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہودی سازشیں اور ان کے نظریات قوموں کو اخلاقی زوال اور فکری بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرتی امن و امان تباہ ہو رہا ہے۔

پانچواں مشیر کی یہ فکر اس بات کی عکاس ہے کہ مغربی معاشرت میں یہودی اثرات نے ہر قوم اور تہذیب کو مادیت پرستی، اخلاقی زوال، اور فکری گمراہی کی طرف مائل کر دیا ہے۔ ان کے نظریات اور سازشوں نے دنیا میں روحانی اقدار کو کمزور کر دیا ہے اور انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

اقبال اس شعر کے ذریعے اس تاریخی حقیقت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں کہ جب بھی کسی قوم نے مادیت پرستی، اخلاقی زوال، اور فکری انتشار کو اپنایا، تو وہ تباہ و برباد ہو گئی۔ یہاں اقبال مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ مغربی تہذیب کے جھوٹے نظریات سے بچیں اور اپنی روحانی اقدار کو مضبوط کریں، ورنہ وہ بھی اسی بربادی کا شکار ہو سکتے ہیں جس کا سامنا ماضی کی قوموں نے کیا۔

زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہیں و چرغ
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے زمانے کے تغیرات اور اقدار کے الٹ پھیر کو واضح کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر حیرانی اور افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ زاغِ دشتی (یعنی جنگلی کوّا) اب شاہین اور چرغ (شکاری پرندے) کے برابر ہو رہا ہے۔ اقبال یہاں زاغ کو پست فطرت، کم ہمت اور کمزور کردار کا استعارہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، جبکہ شاہین اور چرغ بلند حوصلہ، عظیم کردار، اور آزاد روح کے نمائندہ ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آج کے دور میں کم ظرف اور کمزور کردار کے لوگ اعلیٰ مقام حاصل کر رہے ہیں، جبکہ باوقار اور بلند حوصلہ افراد پیچھے رہ گئے ہیں۔

پانچواں مشیر اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ زمانے کا مزاج کس قدر تیزی سے بدل رہا ہے۔ پہلے جو اوصاف بلند مرتبہ سمجھے جاتے تھے، اب ان کی جگہ پست اقدار نے لے لی ہے۔ دنیا میں طاقت، دولت، اور چالاکی کو عزت دی جا رہی ہے، جبکہ اخلاق، دیانت داری، اور اصولوں کی کوئی قدر نہیں رہی۔ اقبال اس شعر میں معاشرتی انحطاط اور اخلاقی زوال کی تصویر کھینچتے ہیں۔

مزید برآں، اقبال یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ سب ابلیسی نظام کا نتیجہ ہے جو حق و باطل کو خلط ملط کر کے دنیا کو گمراہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس نظام نے اعلیٰ قدروں کو پست بنا دیا ہے اور پست قدروں کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زاغ دشتی، جو بزدلی اور بے غیرتی کا علامت ہے، آج شاہین اور چرغ کی ہمسری کر رہا ہے۔

پانچواں مشیر اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہا ہے کہ زمانے کا یہ الٹ پھیر انسانوں کی فطرت اور اقدار کو بگاڑ رہا ہے۔ اس کے ذریعے اقبال مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ اپنی اصل اقدار اور اعلیٰ اخلاقیات کو نہ اپنائیں، تو وہ بھی اسی زوال کا شکار ہو جائیں گے جو آج کی دنیا میں نظر آ رہا ہے۔

چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے انسان کی نادانی اور سطحی سوچ کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر افسوس بھرے لہجے میں کہتا ہے کہ جو چیز ہمیں محض ایک مشتِ غبار (یعنی ایک مٹھی بھر گرد) نظر آتی تھی، وہ حقیقت میں اتنی طاقتور اور وسیع تھی کہ آج وہ وسعتِ افلاک (آسمانوں کی وسعت) پر چھا چکی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے جس فتنے یا نظریے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا، وہ اتنا طاقتور اور غالب ہو گیا کہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اقبال یہاں مسلمانوں کی غفلت اور بے خبری کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اس فتنے کی سنگینی کو نہ سمجھ سکے اور اسے معمولی جان کر اس سے بچاؤ کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ فتنہ پوری دنیا پر چھا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس کے اثرات سے کوئی مفر نہیں۔

مزید برآں، اقبال اس شعر میں اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ دشمن کی سازشوں کو معمولی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر انسان وقت پر حالات کی نزاکت کو نہ سمجھے اور ان کا مقابلہ نہ کرے، تو وہ چھوٹے چھوٹے فتنے بھی بڑی آفتوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

پانچواں مشیر اس بات پر حیران اور افسوس کا اظہار کر رہا ہے کہ مسلمانوں نے اس فتنے کی ابتدا کو معمولی جانا، اور آج وہی فتنہ اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ اس نے ان کے ایمان، ثقافت، اور معاشرتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کی وجہ مسلمانوں کی نادانی اور شعور کی کمی ہے، جس نے انہیں اپنی حالت اور دشمن کی چالوں کو سمجھنے سے محروم کر دیا۔

اقبال اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ آئندہ بھی نادانی اور غفلت کا شکار رہے، تو حالات مزید بگڑیں گے اور وہ اپنے تشخص اور وقار کو مکمل طور پر کھو دیں گے۔

فتنہَ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے مستقبل کے فتنے کی شدت اور اس کے خوفناک اثرات کو بیان کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر فکر مندی کے عالم میں کہتا ہے کہ آنے والے وقت کا فتنہ اتنا ہولناک اور بھیانک ہوگا کہ اس کی ہیبت سے آج ہی پہاڑ، مرغزار (سرسبز و شاداب میدان)، اور جوئبار (ندی نالے) کانپ رہے ہیں۔ یہاں اقبال فتنہَ فردا (یعنی آنے والے دور کے فتنے) سے مراد ایسے نظریات، سازشیں یا حالات لے رہے ہیں جو مسلمانوں کے ایمان، تہذیب، اور معاشرت کو برباد کر سکتے ہیں۔

یہ شعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر آج مسلمان بیدار نہ ہوئے اور اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد نہ کی، تو آنے والا وقت ان کے لیے تباہ کن ہوگا۔ پہاڑوں، مرغزاروں، اور جوئباروں کا کانپنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ فتنہ فطرت کے نظام اور انسانی زندگی پر اتنے گہرے اثرات ڈالے گا کہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی۔

اقبال کے نزدیک یہ فتنہ صرف مادی یا سیاسی نہیں، بلکہ فکری اور روحانی زوال کا باعث بھی بنے گا۔ یہ مسلمانوں کے عقیدے، ثقافت، اور اجتماعی شعور کو کمزور کر دے گا، جس کا نتیجہ اخلاقی پستی اور غلامی کی شکل میں نکلے گا۔

پانچواں مشیر اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اگرچہ یہ فتنہ ابھی پوری طرح ظاہر نہیں ہوا، لیکن اس کی آمد کے آثار اتنے واضح اور خوفناک ہیں کہ آج ہی ہر چیز اس کے خوف سے لرز رہی ہے۔ اقبال اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ غفلت اور سستی کو چھوڑ کر ہوش کے ناخن لیں، ورنہ یہ فتنہ ان کے وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔

یہ شعر مسلمانوں کے لیے بیداری کا پیغام ہے کہ آنے والے خطرات کو معمولی نہ سمجھیں، بلکہ ان کا ادراک کرتے ہوئے اپنے ایمان، اتحاد، اور علم کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں۔

میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار

اقبال اس شعر میں پانچویں مشیر کے ذریعے ابلیس کی حکمرانی اور اس کے نظام کے خطرے کو واضح کر رہے ہیں۔

پانچواں مشیر، ابلیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے: “اے میرے آقا! وہ دنیا جو مکمل طور پر تیری سیادت (قیادت) پر انحصار کرتی ہے، اب الٹ پلٹ ہونے کو ہے۔” یہاں اس دنیا سے مراد وہ نظامِ حیات ہے جو ابلیسی فکر، مادیّت پرستی، اور غلامی کے اصولوں پر قائم ہے۔

اقبال اس شعر کے ذریعے اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں کہ ابلیس کا بنایا ہوا نظام، جو ظلم، جبر، اور انسانوں کو خدا کی بندگی سے دور رکھنے پر مبنی ہے، اب زوال کے دہانے پر ہے۔ پانچواں مشیر اس اندیشے میں مبتلا ہے کہ ابلیس کی حکمرانی کا یہ مضبوط قلعہ، جو صدیوں سے قائم ہے، اب کمزور پڑتا جا رہا ہے اور اس کے گرنے کا وقت قریب ہے۔

یہاں اقبال اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ دنیا میں تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ نظریات جو انسانیت کو ابلیسی غلامی میں جکڑے ہوئے تھے، اب متزلزل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ابلیس کا نظام بہت مضبوط نظر آتا ہے، لیکن اس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور ایک نئی بیداری کی لہر اسے ہلا کر رکھ دے گی۔

اقبال اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ابلیس کا فریب زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر وہ اپنی خودی کو پہچان لیں، علم و ایمان کے ہتھیاروں سے لیس ہو جائیں، اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، تو اس باطل نظام کو زیر و زبر کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔

پانچواں مشیر کی یہ تشویش دراصل ابلیسی نظام کے زوال کی نشانی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حق کی طاقت باطل کے فریب کو شکست دینے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔

ابلیس
(اپنے مشیروں سے)

ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو
کیا ز میں ، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تو بہ تو

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے اس کے غرور اور طاقت کے زعم کو ظاہر کر رہے ہیں۔

ابلیس اپنے مشیروں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: “میرے اختیار اور قبضے میں یہ پورا جہانِ رنگ و بو (یعنی یہ دنیا) ہے۔ زمین، سورج، چاند، اور یہ تہہ در تہہ آسمان، سب میرے تصرف میں ہیں۔” یہاں ابلیس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مادیّت، لذتیں، خواہشات، اور تمام فریب اس کے قابو میں ہیں، اور وہ ان چیزوں کے ذریعے انسانوں کو اپنے دام میں پھنساتا ہے۔

اقبال اس شعر کے ذریعے ابلیس کے اس مغرورانہ دعوے کو پیش کر رہے ہیں جو وہ اپنی طاقت اور دنیا پر اپنے کنٹرول کے حوالے سے کرتا ہے۔ ابلیس کا یہ زعم اس کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ انسانوں کو اللہ کی بندگی سے دور کر کے دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت میں مبتلا کرتا ہے۔

یہاں اقبال یہ واضح کر رہے ہیں کہ ابلیس انسان کو دنیا کی چمک دمک اور مادیّت کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کی روحانی ترقی کو روکنا چاہتا ہے۔ ابلیس اپنے آپ کو کائنات کا مالک سمجھتا ہے کیونکہ وہ دنیا کی مادی خواہشات اور فریب کو کنٹرول کرتا ہے۔

یہ شعر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت کے پیچھے چھپے ہوئے فریب کو پہچانیں۔ اقبال اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ابلیس کی طاقت کا اصل راز اس کے فریب اور مکر میں ہے، اور جو لوگ اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں، وہ اپنی روحانیت اور مقصدِ حیات کو کھو دیتے ہیں۔

ابلیس کے اس دعوے کے پسِ منظر میں اقبال مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ دنیا کی مادیّت اور فریب سے آزاد ہو کر اپنی خودی کو پہچانیں، تو ابلیس کی یہ طاقت بے اثر ہو جائے گی۔

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے اس کے عالمی منصوبے اور مکاری کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

ابلیس اپنے مشیروں سے کہتا ہے: “مشرق و مغرب کی قومیں جلد ہی اپنی آنکھوں سے اس تماشے کو دیکھیں گی جو میں نے تیار کیا ہے۔ میں نے یورپی اقوام کے خون کو جوش و خروش سے بھر دیا ہے، ان میں جنگ و جدل اور تباہی کا بیج بو دیا ہے۔”

یہاں اقبال ابلیس کے اس فریب کو بیان کر رہے ہیں جس کے ذریعے اس نے یورپ میں قوم پرستی، لالچ، اور جنگ و جدل کے جذبات کو بھڑکایا۔ ابلیس نے مختلف اقوام کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا کی، جس کے نتیجے میں عالمی جنگیں اور خونریزی ہوئی۔ یہ اقبال کی طرف سے یورپ کی استعماری سیاست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عالمی تنازعات پر گہری تنقید ہے۔

اقبال اس شعر میں اس حقیقت کو اجاگر کر رہے ہیں کہ ابلیس نے یورپی اقوام کے درمیان نفاق اور تصادم کی آگ بھڑکا کر دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس نے قوموں کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔

یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عالمی طاقتیں جب اپنی طاقت اور مفادات کے لیے کمزور قوموں کا خون بہاتی ہیں، تو درحقیقت وہ ابلیسی منصوبے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اقبال اس کے ذریعے مسلمانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ ان عالمی سازشوں کو سمجھیں اور ان کے جال میں نہ پھنسیں۔

یہاں اقبال کا مقصد صرف ابلیس کے مکروہ منصوبے کو بے نقاب کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کو یہ پیغام دینا بھی ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو پہچانیں، اپنی خودی کو مضبوط کریں، اور آپس میں اتحاد قائم کریں، تو وہ ان عالمی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ پر فخر کا اظہار کروا رہے ہیں۔

ابلیس کہتا ہے کہ وہ صرف ایک “ہُو” (آواز) سے سیاست دانوں اور مذہبی پیشواؤں کو دیوانہ بنا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی چالاکیوں، وسوسوں، اور سازشوں کے ذریعے دنیا کے سب سے بااثر اور سمجھدار سمجھے جانے والے لوگوں کو بھی اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتا ہے۔

یہاں “امامانِ سیاست” سے مراد وہ سیاست دان اور حکمران ہیں جو دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں، جبکہ “کلیسا کے شیوخ” سے مراد وہ مذہبی رہنما ہیں جو عوام کی روحانی اور دینی رہنمائی کے دعوے دار ہیں۔ ابلیس کا کہنا ہے کہ وہ ان سب کو اپنی سازشوں اور دھوکہ دہی کے ذریعے بے بس کر سکتا ہے۔

یہ شعر اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب سیاست اور مذہب کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، تو دونوں ہی قوتیں شیطانی اثرات کے زیرِ اثر آ کر عوام کو گمراہ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ سیاست دان اپنی طاقت اور اقتدار کی ہوس میں، جبکہ مذہبی پیشوا اپنی انا اور مفادات کی خاطر، ابلیس کی چالوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہاں اقبال دراصل اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ دنیا میں فساد، بدعنوانی اور گمراہی پھیلانے میں ابلیسی قوتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جو سیاست اور مذہب دونوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو

اقبال اس شعر میں مغربی تہذیب کی ناپائیداری اور اس کے مصنوعی حسن کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

ابلیس کہتا ہے کہ جو لوگ مغربی تہذیب کو ایک مضبوط اور ناقابلِ شکست نظام سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت نادان ہیں۔ وہ اس تہذیب کی حقیقت کو نہیں سمجھتے، کیونکہ یہ بظاہر تو بہت خوبصورت، دلکش اور ترقی یافتہ نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت شیشے کی بنی ہوئی ایک نازک دنیا کی مانند ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔

یہاں “کارگاہِ شیشہ” ایک استعارہ ہے جو مغربی تہذیب کی کمزوری اور ناپائیداری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تہذیب بظاہر چمکدار اور حسین معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کی بنیادیں کھوکھلی ہیں اور یہ کسی بھی چھوٹے سے دھچکے سے بکھر سکتی ہے۔

ابلیس چیلنج کے انداز میں کہتا ہے کہ اگر کسی کو مغربی تہذیب کی حقیقت جاننی ہے، تو وہ اس کے “جام و سبو” (شراب کے برتنوں) کو توڑ کر دیکھے۔ یہاں “جام و سبو” اس تہذیب کے ان نمائندہ عناصر کی علامت ہیں جو اس کے رنگین اور خوشنما ہونے کا تاثر دیتے ہیں، جیسے مادہ پرستی، فحاشی، اخلاقی زوال، اور بے روح ترقی۔ جب کوئی ان کو توڑ کر دیکھے گا، تو اس تہذیب کی اصلیت سامنے آ جائے گی کہ یہ محض ایک سراب ہے، جو حقیقی روحانی اور اخلاقی اقدار سے خالی ہے۔

یہ شعر ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ مغربی تہذیب کی چمک دمک میں کھو جانے کے بجائے، ہمیں اس کی کمزوریوں اور اندرونی کھوکھلے پن کو سمجھنا چاہیے، تاکہ ہم اپنی خودی کو بیدار کر سکیں اور اپنی تہذیب کی اصل روح کو پہچان سکیں۔

دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

اقبال اس شعر میں فطرت کے قوانین اور انسانی تاریخ میں آنے والے بڑے انقلابات کی ناقابلِ تلافی نوعیت کو بیان کر رہے ہیں۔

ابلیس کہتا ہے کہ وہ زخم اور دراڑیں جو فطرت خود لگا دیتی ہے، انہیں کسی مصنوعی نظریے یا فلسفے کی مدد سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں “دستِ فطرت” قدرت کے اس نظام کی علامت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اقوام اور تہذیبوں میں تغیرات پیدا کرتا ہے۔ جب کسی نظام یا سلطنت کا وقت پورا ہو جاتا ہے، تو وہ ناگزیر طور پر زوال کا شکار ہو جاتی ہے، اور اسے کوئی بھی انسانی تدبیر یا مصلحت بچا نہیں سکتی۔

“مزدکی منطق کی سوزن” سے مراد وہ انقلابی نظریات ہیں جو سماج میں مساوات اور دولت کی ازسرنو تقسیم کی بات کرتے ہیں۔ مزدک ایک ایرانی مفکر تھا جس کے نظریے کے مطابق سماجی ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے دولت کو مشترکہ کر دینا چاہیے۔ ابلیس یہاں طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ اگر کسی قوم یا تہذیب کو خود فطرت نے زوال کی راہ پر ڈال دیا ہو، تو پھر محض نظریاتی مباحثوں اور مصنوعی اصلاحات سے اسے دوبارہ بحال نہیں کیا جا سکتا۔

یہ شعر درحقیقت اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ کسی بھی قوم یا نظام کی مضبوطی یا کمزوری قدرتی اصولوں کے تابع ہوتی ہے۔ جب کوئی تہذیب اخلاقی، روحانی اور فکری زوال کا شکار ہو جاتی ہے، تو پھر کوئی بھی سیاسی یا معاشی فلسفہ اسے دوبارہ عروج نہیں دے سکتا۔ یہی وہ پیغام ہے جو اقبال کے کئی دیگر اشعار میں بھی ملتا ہے کہ حقیقی تبدیلی صرف اس وقت آتی ہے جب قومیں اپنی اصل پہچان اور خودی کو بیدار کرتی ہیں۔

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار آشفتہ مغز ، آشفتہ ہُو

اقبال اس شعر میں ابلیس کے ذریعے اشتراکیت (Communism) پر طنز کر رہے ہیں اور یہ واضح کر رہے ہیں کہ شیطانی نظام کو ان نظریات سے کوئی خطرہ نہیں۔

ابلیس کہتا ہے کہ وہ ان اشتراکی نظریات رکھنے والوں سے خوفزدہ نہیں، کیونکہ یہ لوگ خود بے سروسامان، فکری طور پر منتشر اور غیر منظم ہیں۔ “اشتراکی کوچہ گرد” سے مراد وہ کمیونسٹ انقلابی ہیں جو سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ لیکن ابلیس کے نزدیک ان کی تحریک میں وہ اثر اور قوت نہیں جو اس کے نظام کے لیے کوئی حقیقی خطرہ بن سکے۔

“پریشاں روزگار” یعنی وہ لوگ جو اپنی عملی زندگی میں خود مشکلات کا شکار ہیں، “آشفتہ مغز” یعنی فکری لحاظ سے منتشر اور غیر مستحکم، اور “آشفتہ ہُو” یعنی بے سمت بھٹکنے والے۔ ان الفاظ کے ذریعے ابلیس اشتراکی نظریے کو کمزور اور غیر موثر قرار دیتا ہے۔

یہاں اقبال دراصل کمیونزم کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگرچہ یہ تحریک بظاہر ایک انقلاب کا دعویٰ کرتی تھی، مگر اس میں ایک فکری اور عملی خلا موجود تھا۔ اشتراکیت نے دین کو نظر انداز کر کے صرف مادیات پر توجہ دی، جس کے نتیجے میں وہ معاشرتی تبدیلی تو لانے میں کامیاب ہوئی لیکن انسان کی اصل روحانی اور فکری ترقی کو نہ سمجھ سکی۔

یہ شعر اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ محض معاشی نظام کو بدلنے سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلتی، جب تک کہ ان کے اندر فکری اور روحانی انقلاب نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس کو ان “آشفتہ حال” انقلابیوں سے کوئی خوف نہیں، کیونکہ وہ اس نظام کو چیلنج کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

اقبال اس شعر میں ابلیس کی زبانی ایک بہت گہری حقیقت آشکار کر رہے ہیں۔ ابلیس کہتا ہے کہ اگر اسے کسی سے کوئی حقیقی خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف امتِ مسلمہ سے ہے، کیونکہ اس امت کی راکھ میں ابھی تک آرزو اور امید کے شرارے موجود ہیں۔

یہاں “خاکستر” یعنی راکھ اس امت کی زبوں حالی، ماضی کی عظمت کے ملبے، اور اس کے موجودہ زوال کی علامت ہے۔ بظاہر امت اپنی طاقت کھو چکی ہے، لیکن اس کے اندر ابھی بھی ایک چنگاری باقی ہے، جو اگر بھڑک اٹھے تو ایک عظیم انقلاب لا سکتی ہے۔

“شرارِ آرزو” یعنی امید اور بلند مقاصد کی چنگاری—یہی وہ چیز ہے جس سے ابلیس خوفزدہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر مسلمان اپنی اصل پہچان، اپنی ایمانی قوت اور اپنی خودی کو پہچان لے، تو اس کے شیطانی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا۔

یہ شعر دراصل امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگرچہ وہ اس وقت زوال پذیر ہے، لیکن اس کے اندر وہ روحانی قوت اور ایمانی جوش اب بھی موجود ہے جو اسے پھر سے دنیا کی قیادت کے مقام پر فائز کر سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر چھپی اس چنگاری کو شعلہ بنانے کے لیے بیدار ہو جائے۔

خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو

اقبال اس شعر میں اس امت کے چند باقی ماندہ مردانِ حق کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو اب بھی اپنے خلوص، عبادت اور استقامت کے ذریعے روشنی کی آخری کرن بنے ہوئے ہیں۔ “خال خال” کا مطلب ہے “کچھ ہی لوگ”، یعنی امت میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے جو سحر گاہی آنسوؤں سے وضو کر کے اپنی روحانی طاقت کو زندہ رکھتے ہیں۔

یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایسے لوگ ہی اصل میں امت کے بقا کا سبب ہیں۔ وہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہیں، اپنی آنکھوں کے آنسوؤں سے وضو کرتے ہیں، اور اپنی دعاؤں، تقویٰ اور قربانیوں سے امت کے لیے روشنی کا مینار بنتے ہیں۔

“ظالم وضو” کی ترکیب میں اقبال کی شاعرانہ عظمت نظر آتی ہے۔ یہاں “ظالم” کا مطلب عام منفی معنوں میں نہیں بلکہ شدت اور گہرائی میں ہے، یعنی وہ لوگ جو اپنے سوز و گداز میں اتنے ڈوبے ہوئے ہیں کہ ان کے اشک بھی عبادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو وقت کے فرعونوں کے خلاف اٹھنے کی ہمت رکھتے ہیں، کیونکہ ان کی طاقت ان کی روحانی وابستگی اور اللہ سے گہرا تعلق ہے۔

یہ شعر درحقیقت امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ اگر وہ اپنی عظمتِ رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں انہی مردانِ حق کی صف میں شامل ہونا ہوگا جو راتوں کو روتے ہیں، سحر کے آنسوؤں سے وضو کرتے ہیں اور اپنی روح کو حقیقت کے نور سے منور رکھتے ہیں۔

جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنہَ فردا نہیں ، اسلام ہے

اقبال اس شعر میں ایک گہری حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو زمانے کی حقیقتوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یعنی جنہیں “باطنِ ایام” کا علم حاصل ہے۔ ان کے نزدیک اصل خطرہ مزدکیت (یعنی اشتراکیت اور معاشی مساوات کے نظریات) نہیں، بلکہ وہ اسلام ہے جو اپنی اصل روح میں زندہ ہو جائے تو ہر استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

“مزدکیت” کی اصطلاح یہاں اشتراکیت اور کمیونزم کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو سرمایہ داری کے خلاف کھڑا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر اقبال کے نزدیک یہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مزدکیت صرف ایک وقتی فتنہ ہے، مگر جس چیز سے دنیا کے استحصالی طبقات، استعمار اور شیطانی قوتیں سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں، وہ حقیقی اسلام ہے—وہ اسلام جو اپنے اصل انقلابی اور عدل و انصاف پر مبنی اصولوں کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو جائے۔

یہاں اقبال دراصل امت مسلمہ کو جگا رہے ہیں کہ اگر وہ اپنے دین کو صرف رسمی عبادات تک محدود رکھیں گے، تو دنیا کی طاقتیں ان سے نہیں ڈریں گی۔ لیکن اگر وہ اسلام کی اصل روح یعنی عدل، مساوات، حریتِ فکر اور عمل کو اپنالیں، تو یہ موجودہ ظالمانہ نظاموں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

یہ شعر ایک فکری چیلنج بھی ہے، جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم نے اسلام کو محض ایک رسمی مذہب بنا دیا ہے، یا اس کے اصل پیغام کو سمجھ کر دنیا میں ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہیں؟

(۲)

جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہَ مومن کا دیں

یہ شعر “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” کا حصہ ہے، جہاں ابلیس اپنے مشیروں کے ساتھ دنیا کے حالات پر تبادلۂ خیال کر رہا ہے اور خاص طور پر امتِ مسلمہ کے زوال پر گفتگو ہو رہی ہے۔

ابلیس اس شعر میں بڑے فخر کے ساتھ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ آج کے مسلمان صرف نام کے حاملِ قرآن رہ گئے ہیں، مگر ان کی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہ قرآن کو محض زبانی پڑھتے ہیں، مگر اس کے اصل پیغام سے یکسر غافل ہو چکے ہیں۔

مزید برآں، وہ اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی روحانی و اخلاقی اقدار کو ترک کر کے سرمایہ داری کو ہی اپنا دین بنا لیا ہے۔ یعنی، اب ان کا سب سے بڑا مقصد دولت کا حصول، مادی ترقی، اور دنیاوی جاہ و حشمت ہے، جبکہ اسلامی اصول، مساوات، اور عدل جیسے تصورات پسِ پشت جا چکے ہیں۔

یہ شعر امتِ مسلمہ کے زوال کی ایک گہری عکاسی کرتا ہے، جہاں ان کی فکری اور عملی کمزوریوں کو ابلیس کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال دراصل اس طنزیہ انداز کے ذریعے مسلمانوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ وہ اپنی اصل روحانی اور دینی اقدار کی طرف پلٹیں اور قرآن کو محض زبانی تلاوت کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اس کے پیغام پر عمل کریں۔

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

یہ شعر “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” کا حصہ ہے، جہاں ابلیس امتِ مسلمہ کی زبوں حالی اور اس کے مذہبی پیشواؤں کی بے عملی پر تبصرہ کر رہا ہے۔

ابلیس کہتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ مشرق، یعنی مسلم دنیا، ایک اندھیری رات میں ڈوب چکی ہے۔ اس اندھیرے سے مراد زوال، جہالت، اخلاقی پستی، اور فکری جمود ہے۔ وہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ جو لوگ امتِ مسلمہ کے روحانی اور دینی رہنما ہیں، وہ بے اثر ہو چکے ہیں، کیونکہ ان کے پاس یدِ بیضا جیسا کوئی معجزاتی اثر باقی نہیں رہا۔

“یدِ بیضا” حضرت موسیٰؑ کا وہ معجزہ تھا، جس میں ان کا ہاتھ چمک اٹھتا تھا اور حق کی روشنی پھیل جاتی تھی۔ یہاں اقبال اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ آج کے مذہبی پیشوا صرف نام کے رہنما ہیں، مگر ان کے اندر وہ روحانی قوت اور بصیرت نہیں، جو قوم کی رہنمائی کر سکے۔ وہ امت کو اندھیرے سے نکالنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں اور محض رسمی مذہبی رہنمائی تک محدود ہو گئے ہیں۔

یہ شعر علامہ اقبال کے اس عمومی نظریے کو بیان کرتا ہے کہ جب مذہب کے پیشوا اپنی روحانی طاقت کھو دیتے ہیں اور صرف رسمی اور مادی مفادات میں الجھ جاتے ہیں، تو امت زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ یہ اقبال کی امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑنے کی ایک اور کوشش ہے تاکہ وہ اپنے اصل دینی جوہر کو پہچانیں اور حقیقی قیادت کے لیے کوشاں ہوں۔

عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں

ابلیس یہاں عصرِ حاضر کے بدلتے ہوئے تقاضوں پر اپنی فکری پریشانی کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ موجودہ دور میں جو نظریات اور نظام پروان چڑھ رہے ہیں، ان سے اسے یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں شرعِ پیغمبرؐ یعنی حقیقی اسلامی تعلیمات دوبارہ آشکار نہ ہو جائیں۔

یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر امتِ مسلمہ قرآن و سنت کی حقیقی روح کو سمجھ لے اور اس پر عمل پیرا ہو جائے، تو ابلیسی نظام، جس کی بنیاد مادی لالچ، استحصال، اور طاقت کے کھیل پر ہے، زمین بوس ہو سکتا ہے۔ ابلیس کا خوف دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ اسلامی تعلیمات میں ایک ایسی انقلابی قوت موجود ہے جو ہر ظالمانہ اور استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے۔

اقبال یہاں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مغربی استعمار، سرمایہ دارانہ نظام، اور دیگر استحصالی قوتیں اسی وقت تک حاوی رہ سکتی ہیں جب تک امت اسلام اپنے اصل نظریات اور روحانی اقدار سے ناواقف اور غافل رہے۔ لیکن اگر مسلمان شریعتِ محمدیؐ کے اصل مفہوم کو جان لیں اور اس پر عمل کریں، تو وہ ایک بار پھر دنیا میں ایک انقلابی اور بااثر قوت بن سکتے ہیں۔

الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں

ابلیس یہاں اپنے مشیروں کو خبردار کر رہا ہے کہ انہیں آئینِ پیغمبرؐ (اسلامی شریعت) سے سو گنا زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ایک ایسا انقلابی نظام فراہم کرتی ہیں جو انسانیت کو غلامی اور استحصال سے نجات دلا سکتی ہیں۔

ابلیس اس آیت میں تین بڑی خصوصیات کا ذکر کر رہا ہے جو اسلامی شریعت کو خطرناک بناتی ہیں:

حافظِ ناموسِ زن: اسلام عورت کی عزت و عفت کی حفاظت کرتا ہے، جبکہ مغربی تہذیب اور ابلیسی نظام عورت کو محض ایک تفریح کا ذریعہ بنانے پر تُلا ہوا ہے۔

مرد آزما: اسلام حقیقی مردانگی اور غیرت کو فروغ دیتا ہے، جو استحصالی نظام کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

مرد آفرین: اسلامی نظام ایک ایسی نسل تیار کرتا ہے جو جرأت مند، باوقار اور خوددار ہوتی ہے، جو کسی بھی باطل قوت کے آگے جھکنے سے انکار کرتی ہے۔

اقبال اس شعر کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اسلام میں وہ تمام قوتیں موجود ہیں جو انسان کو آزاد، خوددار، اور غیرت مند بنا سکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ابلیسی نظام ہمیشہ اس سے خائف رہا ہے اور اس کو دبانے کے لیے مختلف سازشیں کرتا رہا ہے۔

موت کا ہے پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں ، نے فقیرِ رہ نشیں

ابلیس اس شعر میں غلامی کے خلاف اسلامی تعلیمات کے انقلابی اثرات پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسلام کا پیغام ہر طرح کی غلامی کے لیے موت کا پیغام ہے، خواہ وہ سیاسی غلامی ہو، معاشی ہو یا فکری۔ اسلام میں آزادی، خودداری، اور مساوات کے اصول اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ کسی بھی استحصالی نظام کو ختم کر سکتے ہیں۔

یہاں ابلیس دو طبقات کا ذکر کر رہا ہے:

فغفور و خاقاں – یہ شاہنشاہوں، بادشاہوں اور ظالم حکمرانوں کی علامت ہے، جو استحصال کے ذریعے اپنی سلطنتیں قائم رکھتے ہیں۔

فقیرِ رہ نشیں – یہ عام انسانوں، مزدوروں اور غریبوں کی علامت ہے، جو صدیوں سے ان ظالموں کے استبداد کا شکار رہے ہیں۔

ابلیس کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر اسلام کی اصل روح دوبارہ بیدار ہو گئی، تو یہ نہ صرف ظالم حکمرانوں کی بادشاہت ختم کر دے گی بلکہ عام انسان کو بھی غلامی کی زنجیروں سے نجات دلا دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مشیروں کو متنبہ کر رہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام ہونے سے روکا جائے، ورنہ دنیا میں کسی بھی قسم کا استحصال باقی نہیں رہے گا۔

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

ابلیس اس شعر میں اسلام کے معاشی نظام پر خدشات کا اظہار کر رہا ہے، جو دولت کو پاکیزگی اور امانت داری کے اصولوں کے تحت رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔

وہ کہتا ہے کہ اسلامی نظام دولت کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک کرتا ہے، یعنی یہ سود، ذخیرہ اندوزی، استحصال، اور ناجائز منافع خوری کی مخالفت کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق دولت مند افراد کو اپنی دولت کو محض ذاتی عیش و عشرت کے لیے استعمال کرنے کی بجائے، اسے ایک امانت سمجھ کر انصاف اور مساوات کے اصولوں کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔

ابلیس کو خطرہ ہے کہ اگر اسلام کی یہ تعلیمات دوبارہ زندہ ہو گئیں، تو سرمایہ داروں اور استحصالی طبقات کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ اسلامی معیشت میں دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہونے دی جاتی بلکہ زکوٰۃ، صدقات، اور عدل کے ذریعے اسے پورے معاشرے میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مشیروں کو خبردار کر رہا ہے کہ اسلامی معیشت کی اصل روح کو دبانا ضروری ہے، ورنہ سرمایہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں

یہ شعر ایک زبردست فکری اور عملی انقلاب کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں سلطنتوں اور بادشاہوں کی حاکمیت ختم ہو کر زمین پر صرف اللہ کی حکمرانی قائم ہونے کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔

ابلیس کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر اسلام کا اصل پیغام عوام میں بیدار ہو گیا، تو وہ اس باطل نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے جو بادشاہت، جاگیرداری اور سرمایہ داری پر قائم ہے۔ اسلام کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ زمین کسی انسان یا طبقے کی جاگیر نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے، اور اس پر حکمرانی کا حق بھی صرف اللہ کے دیے گئے قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔

یہ انقلاب محض ایک سیاسی یا معاشی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری بیداری بھی ہے، جو عوام کو حقیقی آزادی اور انصاف کی طرف لے جا سکتا ہے، جسے ابلیس اپنے نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں

ابلیس اس شعر میں اپنی کامیابی پر خوش ہو رہا ہے اور امید کر رہا ہے کہ دنیا کی نظروں سے اسلامی آئین اور اس کی اصل روح پوشیدہ رہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا نظامِ عدل و انصاف، جو حقیقی حریت، مساوات، اور اللہ کی حاکمیت پر مبنی ہے، لوگوں کے سامنے نہ آئے۔

ابلیس کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی یہ نہیں کہ دنیا اسلام کے اصولوں سے ناآشنا ہو، بلکہ یہ کہ خود مسلمان اپنے دین پر یقین سے محروم ہو جائے۔ جب ایک مومن ہی یقین سے خالی ہو جائے تو پھر وہ اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل نہیں کرے گا، اور اسی بے یقینی میں بھٹکتے ہوئے باطل قوتوں کا غلام بن جائے گا۔

یہ وہی کیفیت ہے جس میں مسلمان ظاہری طور پر دین کا نام لیتے ہیں مگر عملی طور پر مغربی تہذیب، سرمایہ داری اور ملوکیت کے اسیر ہو چکے ہیں۔ ابلیس کے لیے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ مومن کا دل اپنے ہی دین کی حقانیت پر شک کرنے لگے اور یوں وہ خود بیداری اور انقلاب کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے۔

ہے یہی بہتر الہٰیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

ابلیس اس شعر میں اپنی سب سے بڑی سازش کو واضح کر رہا ہے، یعنی مسلمانوں کو عملی اسلام سے دور کر کے انہیں صرف نظریاتی اور فلسفیانہ بحثوں میں الجھا دینا۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان قرآن کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے محض تاویلات، بحث و مباحثہ اور فقہی اختلافات میں الجھے رہیں۔

یہ ابلیسی حربہ اس لیے مؤثر ہے کہ جب ایک قوم عملی اقدام چھوڑ کر صرف نظریاتی بحثوں میں الجھ جاتی ہے، تو وہ اپنی طاقت، توانائی اور وقت ضائع کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی امت مسلمہ فرقہ واریت، غیر ضروری فقہی مباحث اور الہٰیاتی پیچیدگیوں میں الجھی ہوئی ہے، جبکہ عملی میدان میں قیادت، سائنس، معاشی ترقی اور سماجی اصلاح میں پیچھے رہ گئی ہے۔

ابلیس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان قرآن کے عملی پیغام پر توجہ نہ دیں بلکہ اسے صرف تاویلات، فلسفیانہ گتھیوں اور غیر ضروری اختلافات کا موضوع بنا کر رکھ دیں تاکہ امت مسلمہ کمزور اور بے عمل ہو کر رہ جائے۔

(۳)

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات

ابلیس اس شعر میں اپنی سب سے بڑی فکری دشمنی کا اظہار کر رہا ہے—ایسا مومن جو سچے عقیدے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہو۔ وہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اگر کوئی ایسا مومن پیدا ہو گیا جو اللہ پر کامل یقین رکھتا ہو، تو وہ اپنے تکبیر کے نعروں سے پوری دنیا کے باطل نظام کو ختم کر سکتا ہے۔

یہاں طلسمِ شش جہات سے مراد وہ باطل طاقتیں، مادی دنیا کی غلامی اور مغربی استعماری نظام ہے، جو انسان کو حقیقت سے غافل کر کے رکھتا ہے۔ ابلیس چاہتا ہے کہ ایسا کوئی مومن پیدا نہ ہو جو اللہ کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہوئے ظالم نظاموں کو چیلنج کر سکے، کیونکہ ایسا شخص دنیا کے مادی، ظالمانہ، اور استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔

لہٰذا، ابلیس دعا کرتا ہے کہ ایسا خدا اندیش شخص کبھی بیدار نہ ہو، اور اگر ہو بھی تو اس کی رات ہمیشہ تاریک رہے، یعنی وہ کبھی اپنی حقیقت نہ پہچان سکے اور غلامی میں جکڑا رہے۔

ابن مریم مر گیا یا زندہَ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذات حق، حق سے جدا یا عینِ ذات

ابلیس اس شعر میں الہٰیات کے پیچیدہ مباحث اور فلسفیانہ سوالات کو اجاگر کر رہا ہے، جو امت مسلمہ کو عملی میدان میں الجھانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

یہاں ابن مریم یعنی حضرت عیسیٰؑ کی زندگی اور ان کے زندہ یا وفات پا جانے کا سوال دراصل ایک تمثیل ہے، جو مسلمانوں کے فکری انتشار کو ظاہر کر رہی ہے۔ اسی طرح، صفاتِ الہٰیہ کا ذاتِ باری تعالیٰ سے جدا ہونے یا عین ذات ہونے کا سوال صدیوں سے علمِ کلام میں زیرِ بحث رہا ہے۔ ابلیس چاہتا ہے کہ مسلمان انہی غیر ضروری فلسفیانہ بحثوں میں الجھے رہیں تاکہ وہ اپنے اصل مقصد—عملی جدوجہد، دین کی سربلندی، اور اللہ کے نظام کے قیام کی طرف نہ جا سکیں۔

یہ شعر علامہ اقبال کے اس پیغام کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ مسلمانوں کو بے مقصد مباحث اور اختلافات میں الجھنے کے بجائے عملیت پسندی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ یہی ابلیس کی سب سے بڑی چال ہے کہ وہ امت کو غیر ضروری فکری مسائل میں پھنسا کر انہیں جہادِ زندگانی سے غافل کر دے۔

آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزندِ مریم کی صفات

ابلیس اس شعر میں مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی مہدی و مسیح کے انتظار کی سوچ کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ اس بات پر روشنی ڈال رہا ہے کہ امتِ مسلمہ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں عمل سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

یہاں ابلیس سوال اٹھا رہا ہے کہ جو آنے والا ہے، وہ حضرت عیسیٰؑ کی واپسی ہے یا کوئی ایسا مجدد جو حضرت مسیحؑ کی صفات رکھتا ہو؟ یہ سوال دراصل اس بحث کو نمایاں کرتا ہے کہ مسلمانوں کی توجہ عملی اصلاح پر ہونی چاہیے، نہ کہ صرف کسی غیبی مدد یا مسیح و مہدی کے انتظار پر۔

علامہ اقبال اس کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امت کو کسی نجات دہندہ کے انتظار میں بیٹھنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر اپنے حالات سنوارنے چاہیے۔ یہی ابلیس کی چال ہے کہ وہ انہیں انتظار میں الجھائے رکھے تاکہ وہ اپنے حالات بدلنے کے لیے خود کوئی عملی اقدام نہ کریں۔

ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
اُمتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات

ابلیس اس شعر میں مسلمانوں کو غیر ضروری عقیدتی مباحث میں الجھانے کی اپنی چال کو ظاہر کر رہا ہے۔ وہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا قرآن کے الفاظ حادث (یعنی پیدا شدہ) ہیں یا قدیم (یعنی ہمیشہ سے موجود)؟

یہ وہ بحث تھی جو ماضی میں مسلمان علماء اور فرقوں کے درمیان شدید اختلافات کا باعث بنی اور امت کا قیمتی وقت اور توانائی ضائع ہوئی۔ ابلیس اسی نکتے کو اجاگر کر رہا ہے کہ امتِ مسلمہ کو عملی ترقی اور اصلاح کے بجائے غیر ضروری عقیدتی مسائل میں الجھا کر ان کی نجات کے سوال کو بے سمت کر دیا جائے۔

اقبال اس کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی اصل نجات عقائد کی بحث میں الجھنے کے بجائے قرآن کی عملی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔ لیکن ابلیس چاہتا ہے کہ وہ ان غیر ضروری اختلافات میں پڑے رہیں تاکہ عملی میدان میں وہ کوئی ترقی نہ کر سکیں۔

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات

ابلیس یہاں مسلمانوں کی فکری زوال پذیری اور ان کے عقائد میں جمود کی نشاندہی کر رہا ہے۔ وہ طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ کیا آج کے مسلمانوں کے لیے یہی کافی نہیں کہ وہ محض الہیات (یعنی مذہبی فلسفے) کے بنائے ہوئے نئے لات و منات (بتوں) کی پرستش کرتے رہیں؟

یہ شعر دراصل مسلمانوں کی دین سے وابستگی کے ایک سطحی تصور پر تنقید ہے۔ جیسے قبل از اسلام عرب قوم نے لات و منات جیسے بتوں کو اپنی مذہبی زندگی کا محور بنا رکھا تھا، اسی طرح آج کے مسلمان غیر ضروری عقائدی بحثوں، فرقہ واریت اور جامد خیالات میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

اقبال اس کے ذریعے اس نکتے کو واضح کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو الہیات کے پیچیدہ اور غیر ضروری مسائل میں الجھنے کے بجائے دین کے عملی پہلوؤں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عظمت بحال کر سکیں۔

تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات

ابلیس اپنے مشیروں کو حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو عملی زندگی سے دور رکھو تاکہ وہ حقیقی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان محض نظریاتی مباحث اور غیر ضروری عقائدی الجھنوں میں الجھے رہیں اور عملی میدان میں کوئی کردار ادا نہ کریں۔

یہ شعر اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اقوام کی ترقی کا دار و مدار ان کے کردار اور عملی جدوجہد پر ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کو محض نظریاتی اور فلسفیانہ بحثوں میں الجھا دیا جائے تو وہ زندگی کے شطرنج میں شکست خوردہ ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کے تمام مہرے مات ہو چکے ہوتے ہیں۔

اقبال اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو عمل کی راہ اختیار کرنے اور محض گفت و شنید کے بجائے میدانِ عمل میں قدم رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں، تاکہ وہ دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر سکیں۔

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ابلیس اپنے مشیروں کو یقین دلاتا ہے کہ مسلمانوں کی غلامی ہی اس کے مفادات کے لیے سب سے بہتر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ دوسروں کے تابع رہیں اور دنیاوی اقتدار اور ترقی سے محروم رہیں۔ اس کے نزدیک، اگر مسلمان اس فانی دنیا کو غیر اہم سمجھ کر ترک کر دیں اور دوسروں کو اس پر قابض ہونے دیں، تو یہی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

یہ شعر دراصل مسلمانوں کی فکری غلامی کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں وہ اپنی عملی قوت کو چھوڑ کر صرف روحانی معاملات تک محدود ہو گئے ہیں۔ اقبال اس شعر کے ذریعے اس سوچ پر تنقید کر رہے ہیں کہ مسلمان اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کے بجائے دوسروں کے رحم و کرم پر رہنے کو قبول کر لیں۔ وہ مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے دنیاوی ترقی اور قیادت کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی حقیقی عظمت بحال کر سکیں۔

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

ابلیس اپنے مشیروں کو بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سب سے بہتر وہی شاعری اور تصوف ہے جو انہیں عملی زندگی سے دور رکھے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے بجائے خیالات، خوابوں اور مجرد فلسفے میں الجھے رہیں تاکہ انہیں اپنی زبوں حالی کا احساس ہی نہ ہو۔

یہ شعر دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب شاعری اور تصوف کا مقصد صرف جذباتی تسکین بن جائے اور وہ عمل کی دنیا سے بیگانہ کر دے، تو وہ ایک خطرناک سازش بن جاتی ہے۔ اقبال ایسے تصوف اور شاعری کے خلاف ہیں جو زندگی کے حقائق سے نظریں چرانے پر مجبور کر دے۔ وہ اس شعر کے ذریعے مسلمانوں کو عملی میدان میں اترنے اور حقیقت کا سامنا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کر سکیں۔

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

ابلیس اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر امتِ مسلمہ بیدار ہو گئی، تو وہ دنیا کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اس کا دین محض عبادات اور رسوم تک محدود نہیں بلکہ پورے نظامِ کائنات کے احتساب کی طاقت رکھتا ہے۔ یعنی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو سیاست، معیشت، سماج اور اخلاقیات سمیت ہر پہلو پر حاوی ہے۔

ابلیس کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر مسلمان اپنے دین کی اصل روح کو سمجھ کر عمل میں ڈھال لیں، تو وہ دنیا کے ظالمانہ نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ مسلمانوں کو غفلت میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ کبھی اپنی اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہوں۔ یہ شعر مسلمانوں کو جھنجھوڑنے اور ان کے اندر بیداری پیدا کرنے کا پیغام ہے تاکہ وہ اپنی عظمتِ رفتہ کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔

مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے

ابلیس اپنی چالاکی اور حکمتِ عملی کو واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کو ذکر و اذکار اور رسمی عبادات میں مصروف رکھو تاکہ وہ عملی زندگی کے میدان میں کوئی کردار ادا نہ کر سکیں۔ ان کی فکری اور انقلابی روح کو ختم کرنے کے لیے انہیں خانقاہی ماحول میں محدود کر دو، جہاں وہ دنیاوی معاملات سے کٹ کر صرف صوفیانہ محافل اور روحانی ریاضت میں مگن رہیں۔

یہاں اقبال دراصل امتِ مسلمہ کی کمزوری کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر وہ صرف خانقاہی زندگی میں محو رہے اور عملی میدان میں کوئی کردار ادا نہ کیا، تو وہ کبھی بھی دنیا کے مسائل حل کرنے اور اسلام کے نظامِ عدل کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس شعر میں مسلمانوں کو دعوتِ عمل دی گئی ہے کہ وہ صرف ذکر و فکر تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنے دین کی عملی طاقت کو دنیا میں نافذ کریں۔


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button