آرزو داشتم، خوں کرد مش
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

آ رزو داشتم، خوں کرد مش
تا ز راہ دیدہ بیروں کردمش
ترجمہ:
“میں ملتِ اسلامیہ کے بارے میں بہت سی آرزوئیں رکھتا تھا، ان سب کا میں نے خون کر دیا ہے۔ میں نے انہیں آنکھوں کے راستے باہر نکال دیا ہے۔ ان آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے میں ہر وقت گریہ کرتا رہتا ہوں۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں اپنی ملتِ اسلامیہ کے لیے گہرے درد، احساسِ زیاں، اور ناامیدی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ امت کی عظمت کے خواب دیکھتے تھے، مگر ان خوابوں کے ٹوٹ جانے پر ان کا دل افسردہ ہو گیا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کی بھلائی اور بلندی کی آرزوئیں:
اقبال بیان کرتے ہیں کہ ان کے دل میں ملتِ اسلامیہ کے عروج، ترقی، اور بھلائی کے لیے بہت سی آرزوئیں تھیں۔
وہ چاہتے تھے کہ امت دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرے اور دنیا میں اپنا وقار بحال کرے۔
آرزوؤں کا خون:
افسوس کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ ان آرزوؤں کا خون ہو چکا ہے، یعنی وہ خواب جو انہوں نے امت کے لیے دیکھے تھے، پورے نہ ہو سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ زوال کا شکار ہو گئی اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکی، جس کا انہیں شدید دکھ ہے۔
آنسوؤں کے ذریعے درد کا اظہار:
اقبال کہتے ہیں کہ ان کے مسلسل رونے کی وجہ سے یہ تمام حسرتیں اور خواب آنسو بن کر بہہ گئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں جو امیدیں اور تمنائیں تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں، اور ان کے دل کا درد آنکھوں کے راستے باہر نکلنے لگا۔
ملت کے زوال پر مسلسل گریہ:
اقبال اپنی بے بسی اور ملتِ اسلامیہ کی حالت پر افسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہر وقت روتے رہتے ہیں۔
یہ صرف ذاتی غم نہیں بلکہ پوری امت کی تباہی اور زوال پر ان کے دل کی تڑپ کو ظاہر کرتا ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک سچا رہنما یا مفکر اپنی قوم کے زوال پر کیسے افسوس کرتا ہے۔ جب ایک عظیم امت اپنے شاندار ماضی کو بھول جائے اور زوال کی راہ پر چل پڑے، تو وہ لوگ جو اس کی فلاح کے خواہشمند ہوتے ہیں، صرف آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
خلاصہ:
اقبال ملتِ اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے خواب دیکھتے تھے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ امت اپنی راہ کھو چکی ہے، تو ان کی تمام آرزوئیں ٹوٹ گئیں۔ ان حسرتوں کے پورا نہ ہونے پر وہ مسلسل گریہ کرتے ہیں اور ان کی امیدیں آنسو بن کر بہہ جاتی ہیں۔ یہ شعر ملت کے زوال پر ایک دردمند دل کی سچی فریاد ہے۔