پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

نالہ افشا گر اسرار عشق


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

نالہ افشا گر اسرار عشق

 خونبہائے حسرت گفتار عشق

ترجمہ:

“وہ نالے عشق کے اسرار کو افشاں کرنے والے تھے، وہ نالہ گفتارِ عشق حسرت کا خون بہا تھے۔”

تشریح:

اقبال اس شعر میں عشق، اس کی گہرائی، اور اس کے اظہار کی مشکل کو بیان کرتے ہیں۔ وہ نالہ (آہ و زاری) کو عشق کے رازوں کے انکشاف کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، جبکہ عشق کی گفتگو (گفتار) کی حسرت کو قربانی اور خون بہانے سے تعبیر کرتے ہیں۔

نالے عشق کے اسرار کو ظاہر کرنے والے تھے:

اقبال کہتے ہیں کہ وہ آہیں، وہ نالے جو عشق کی شدت سے نکلتے ہیں، درحقیقت عشق کے پوشیدہ رازوں کو ظاہر کر دیتے ہیں۔

عشق ایک خاموش کیفیت بھی ہو سکتا ہے، مگر جب وہ شدت اختیار کرتا ہے، تو انسان کی زبان سے بے ساختہ نالے بلند ہوتے ہیں، جو اس کی سچائی، تڑپ، اور گہرائی کو ظاہر کر دیتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عشق کی حقیقت کو صرف وہی جان سکتا ہے جو اس درد کو محسوس کرے اور اس میں فنا ہو جائے۔

گفتارِ عشق حسرت کا خون بہا:

“گفتارِ عشق” یعنی عشق کی مکمل گفتگو، یعنی عشق کی وہ حقیقت جسے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی گفتار، یعنی اسے مکمل طور پر الفاظ میں بیان کرنے کی خواہش، اکثر ادھوری رہ جاتی ہے، اور اس کی قیمت حسرت اور درد کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔

یہ اشارہ اس طرف بھی ہے کہ حقیقی عشق کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، اسے مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔

عشق کی قربانی اور درد کا اظہار:

اقبال یہاں عشق کو ایک ایسا جذبہ قرار دیتے ہیں جس میں اظہار بھی تکلیف دہ ہوتا ہے اور خاموشی بھی قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔

نالے وہ آوازیں ہیں جو عاشق کے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں، اور وہی اصل میں عشق کے رازوں کو کھولتی ہیں۔

مگر یہ نالے بھی عشق کے مکمل اظہار کے لیے کافی نہیں ہوتے، کیونکہ عشق ہمیشہ حسرت اور قربانی کا متقاضی ہوتا ہے۔

عشق کا فلسفہ:

اقبال عشق کو ایک انتہائی لطیف اور گہرا جذبہ قرار دیتے ہیں، جو کبھی مکمل طور پر زبان سے بیان نہیں ہو سکتا۔

جو لوگ عشق کے سچے رازوں کو جاننا چاہتے ہیں، انہیں اس کے درد اور قربانی کو قبول کرنا ہوگا۔

مثال کے طور پر:

یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ عشق محض ایک خوشنما خیال نہیں، بلکہ اس میں قربانی، درد، اور ناقابلِ بیان جذبات کا سمندر چھپا ہوتا ہے۔ عشق کے اسرار صرف انہی پر ظاہر ہوتے ہیں جو سچے دل سے اس کی راہ پر چلتے ہیں۔

خلاصہ:

اقبال اس شعر میں عشق کے راز، اس کے اظہار کی مشکل، اور اس میں موجود قربانی کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کی سچی فریاد اس کے اسرار کو ظاہر کر دیتی ہے، مگر عشق کی مکمل گفتگو کو بیان کرنا ممکن نہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ حسرت اور قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ شعر عشق کی گہرائی، اس کے دکھ، اور اس کی لازوال حقیقت کو اجاگر کرتا ہے۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button