پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

 از سخن ائینہ سازم کردہ  اند

 از سخن ائینہ سازم کردہ  اند

 و ز  سکندر بے نیازم کردہ اند 

ترجمہ

 کلام شاعری  نےمیری آئینہ سازی کی ہے اور مجھے سکندر سے بے نیاز کر دیا ہے

 تشریح

 یہ عبارت شاعر کی اپنی شاعری کی طاقت اور خودمختاری کے شعور کو ظاہر کرتی ہے۔ شاعر نے اپنی شاعری کو آئینہ سازی سے تشبیہ دی ہے، جو اس کی شخصیت اور خیالات کی عکاسی کرتی ہے۔ تشریح کے مطابق:

شاعری میں آئینہ سازی:

شاعر کہتا ہے کہ اس کی شاعری آئینہ سازی کا کام کرتی ہے، یعنی وہ اس کے خیالات، جذبات، اور حقیقتوں کو منعکس کرتی ہے۔

یہ آئینے اس کے خیالات کو واضح اور شفاف انداز میں پیش کرتے ہیں۔

سکندر سے بے نیازی:

سکندر بادشاہ کے آئینے کی طرف اشارہ غالباً اس کی شان و شوکت اور دنیاوی طاقت کی علامت ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ اس کی شاعری نے اسے سکندر کے آئینے یا دنیاوی شان و شوکت کی طلب سے آزاد کر دیا ہے۔

اپنی تخلیقی دنیا کی عظمت:

شاعر کو اپنی شاعری کے ذریعے وہ کچھ حاصل ہو گیا ہے جو دنیاوی طاقتیں یا دولت اسے نہیں دے سکتیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی شاعری اس کے لیے خودکفالت اور اندرونی سکون کا ذریعہ بن چکی ہے۔

آئینوں کے ڈھیر:

شاعر کا کہنا ہے کہ اس کی شاعری نے اس کے لیے "آئینوں کے ڈھیر” لگا دیے ہیں، یعنی وہ خود اپنے خیالات اور شخصیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو چکا ہے۔

یہ آئینے اس کی خود شناسی اور فکری بلندی کی علامت ہیں۔

دنیاوی چیزوں سے بے نیازی:

شاعر یہاں دنیاوی طاقت، دولت، اور جاہ و جلال سے بے نیازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

وہ اپنی شاعری کو اپنی سب سے بڑی طاقت اور خزانہ سمجھتا ہے۔

مثال کے طور پر:

یہ تشریح اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ تخلیقی صلاحیت اور خود شناسی انسان کو دنیاوی طاقتوں اور دولت کی طلب سے بے نیاز کر سکتی ہے۔ شاعر کے لیے اس کی شاعری سب سے بڑی دولت ہے۔

خلاصہ:

یہ عبارت شاعر کی خود شناسی اور اس کی شاعری کی طاقت کا اظہار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس کی شاعری نے اسے دنیاوی طاقتوں، جیسے سکندر بادشاہ کی شان و شوکت، سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس کی شاعری نے اس کے لیے خیالات اور خود شناسی کے آئینے فراہم کیے ہیں، جو اس کی حقیقی عظمت کی بنیاد ہیں۔

شارع: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button