در شرار آباد ہستی اخگرم
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

در شرار آباد ہستی اخگرم
خلعتے بخشد مرا خاکستر م
ترجمہ
میں وہ چنگاری ہوں جو زندگی کی آباد خانہ میں انگاروں کی طرح ہوں میری راکھ بننا ہی مجھے خلعت بخشتا ہے
تشریح
یہ عبارت شاعر کی جستجو، قربانی، اور فنا میں بقا کے فلسفے کو بیان کرتی ہے۔ شاعر نے اپنے وجود کو چنگاری اور انگارے سے تشبیہ دے کر اپنی زندگی کے مقصد کو واضح کیا ہے۔ تشریح کے مطابق:
چنگاری جو انگاروں کی طرح دہکتی ہے:
شاعر خود کو ایک چنگاری کہتا ہے جو “زندگی کے آباد خانہ” میں جلتی ہے۔
“آباد خانہ” زندگی کی سرگرمیوں، کامیابیوں، اور مشکلات کی علامت ہے۔
چنگاری کی مانند وہ حرارت اور توانائی رکھتا ہے، جو روشنی، گرمی، اور جوش کا استعارہ ہے۔
زندگی کی شدت میں جلنا:
شاعر خود کو محض ایک چنگاری نہیں، بلکہ انگاروں کی مانند دہکنے والا وجود سمجھتا ہے۔
انگارے کا دہکنا جدوجہد، مشکلات، اور سختیوں کا سامنا کرنے کی علامت ہے۔
یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ شاعر اپنی زندگی میں ہر چیلنج کو قبول کرتا ہے اور مسلسل جلتے ہوئے روشنی اور گرمی دیتا ہے۔
راکھ بننا ہی خلعت (عزت کا لباس) پانا:
شاعر کہتا ہے کہ اس کا راکھ بننا ہی اس کے لیے خلعت (اعزاز) ہے، یعنی وہ جب جل کر راکھ ہو جاتا ہے، تب ہی اپنی حقیقت اور مقصد کو مکمل کرتا ہے۔
یہ فنا میں بقا کا فلسفہ ہے کہ عظیم لوگ اپنی زندگی میں قربانی دے کر ہی امر ہو جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب کوئی انسان اپنی خواہشات، تکالیف، اور خودی کو جلا کر راکھ میں بدل دیتا ہے، تب وہ حقیقت میں کامیاب اور باعزت ہو جاتا ہے۔
راکھ، شاعر کے لیے ایک لباس:
شاعر مزید وضاحت کرتا ہے کہ جب وہ راکھ میں بدل جاتا ہے تو وہی راکھ اس کے لیے خلعت، یعنی ایک لباس بن جاتی ہے، جو اسے مکمل کر دیتی ہے۔
یہ علامتی طور پر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مشکلات اور قربانیاں ہی کسی کی اصل شناخت بنتی ہیں۔
جیسے چنگاری کا مقدر راکھ ہونا ہوتا ہے، اسی طرح شاعر بھی اپنے وجود کی تکمیل کے لیے قربانی دینے کو تیار ہے۔
مثال کے طور پر:
یہ تشریح ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی اور مسلسل محنت کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ جو لوگ اپنی زندگی میں مسلسل جلتے اور محنت کرتے ہیں، وہی تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں، چاہے وہ خود فنا کیوں نہ ہو جائیں۔
خلاصہ:
یہ عبارت شاعر کی جدوجہد، قربانی، اور عظمت کو بیان کرتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کو ایک چنگاری کی طرح دہکانے اور جلنے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ شاعر کے نزدیک راکھ بننا شکست نہیں، بلکہ وہی اسے عزت، مقام، اور شناخت عطا کرتا ہے۔ یہ ایک گہرا پیغام ہے کہ اصل کامیابی وہی ہے جو انسان کی قربانی اور جدو جہد کے ذریعے حاصل ہو۔