جلوہ را افزودم و خود کاستم
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

جلوہ را افزودم و خود کاستم
دیگرارں را محفلے آ راستم
ترجمہ:
“میں نے شمع کی طرح اپنے جلوؤں میں اضافہ کیا اور خود کو گھٹایا اور دوسرے لوگوں کے لیے محفل کو آراستہ کیا۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں قربانی، ایثار، اور دوسروں کے لیے روشنی پھیلانے کی تمثیل پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کو شمع سے تشبیہ دیتے ہیں، جو خود کو جلا کر دوسروں کے لیے روشنی فراہم کرتی ہے۔
شمع کی طرح جلوؤں میں اضافہ کرنا:
اقبال کہتے ہیں کہ انہوں نے شمع کی مانند اپنے جلوؤں (روشنی، علم، فہم) میں اضافہ کیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو جلا کر دوسروں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنے، یعنی انہوں نے علم، بصیرت، اور رہنمائی کا نور پھیلایا۔
خود کو گھٹانا:
شمع جتنا زیادہ جلتی ہے، اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے۔
اقبال یہاں قربانی کا فلسفہ بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کے لیے خود کو فنا کر دیا، یعنی اپنے آرام، خوشیوں، اور ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ملت کی خدمت میں لگ گئے۔
محفل کو آراستہ کرنا:
شاعر کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قربانی کا مقصد دوسروں کے لیے روشنی، خوشحالی، اور آگہی پیدا کرنا تھا۔
وہ چاہتے ہیں کہ ان کی محنت اور جدوجہد سے امت مسلمہ کو ترقی اور روشنی ملے، تاکہ وہ اندھیروں سے باہر نکل کر اپنی عظمت بحال کرے۔
ایثار اور رہنمائی کا درس:
اقبال کے مطابق، ایک حقیقی رہنما یا مصلح وہی ہوتا ہے جو دوسروں کی بہتری کے لیے اپنی ذات کی قربانی دے۔
ان کے یہ خیالات ہمیں سکھاتے ہیں کہ اگر ہمیں معاشرے میں تبدیلی اور ترقی لانی ہے، تو ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر دوسروں کے لیے کام کرنا ہوگا۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ کامیابی اور رہنمائی قربانی مانگتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے روشنی پھیلانے کا کام کرتے ہیں، انہیں سب سے زیادہ محنت اور قربانی دینی پڑتی ہے، مگر ان کی محنت ہی دوسروں کے لیے ایک بہتر راستہ بناتی ہے۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں قربانی اور ایثار کے جذبے کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی روشنی بڑھائی، مگر اس کے بدلے میں خود کو گھٹایا، تاکہ دوسروں کے لیے محفل کو آراستہ کر سکیں۔ یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک حقیقی رہنما وہی ہوتا ہے جو خود جل کر دوسروں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنتا ہے۔