تا ز خاکت لالا زار آید پدید
Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/u500905684/domains/urdupoetrylibrary.com/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

تا ز خاکت لالا زار آید پدید
از دمت باد بہار آید پدید
ترجمہ:
“تاکہ تیری مٹی سے لالہ زار پیدا ہوں اور تیرے دم سے بادِ بہار ظاہر ہو جائے۔”
تشریح:
اقبال اس شعر میں ملتِ اسلامیہ کی بیداری، اس کے عروج، اور اس کے اثرات کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امت کی سرزمین دوبارہ خوشحال ہو اور اس کے دم سے دنیا میں بہار کی ہوا چلے، جو اس کے شاندار ماضی کی یاد دلائے۔
تیری مٹی سے لالہ زار پیدا ہوں:
“تیری مٹی” امت مسلمہ کی سرزمین، اس کی نسل، اور اس کے افراد کی علامت ہے۔
“لالہ زار” یعنی گلزار، خوبصورتی، اور شادابی کی علامت ہے، جو ترقی، کامیابی، اور علم و شعور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اقبال یہاں یہ دعا کرتے ہیں کہ امت کی سرزمین پر دوبارہ ایسی نسل پیدا ہو، جو علم، غیرت، اور کردار کی بلندی میں نمایاں ہو اور جو امت کو اس کے کھوئے ہوئے مقام پر لے جائے۔
تیرے دم سے بادِ بہار ظاہر ہو:
“بادِ بہار” یعنی بہار کی ہوا، جو خوشحالی، ترقی، اور کامیابی کی علامت ہے۔
اقبال یہاں امت مسلمہ کی عظمت کو ایک ایسی تازہ ہوا سے تشبیہ دیتے ہیں، جو پوری دنیا پر اثر ڈالتی تھی۔
وہ چاہتے ہیں کہ امت کے افراد کی ہمت، غیرت، اور بلندیِ کردار سے دنیا میں ایک نئی روح اور تازگی پیدا ہو۔
امت کے بلند افکار اور عظمت کا احیاء:
اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امت کے افراد کو اپنی قابلیت اور بلندی کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا، تاکہ وہ دنیا میں ایک خوشگوار اور مثبت تبدیلی لا سکیں۔
وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اگر امت کے لوگ اپنے افکار کو بلند کریں اور اپنی عظمت کو پہچانیں، تو وہ ایک بار پھر دنیا میں علم، ترقی، اور قیادت کی علامت بن سکتے ہیں۔
شاندار ماضی کی یاد دہانی:
اقبال ماضی کے اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب امت مسلمہ علم و حکمت، اخلاق، اور تہذیب میں سب سے آگے تھی۔
وہ چاہتے ہیں کہ امت کی سرزمین دوبارہ ایسی ہستیوں کو جنم دے، جو اپنی فکر، کردار، اور عمل کے ذریعے دنیا میں ایک مثبت انقلاب برپا کر سکیں۔
مثال کے طور پر:
یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر ایک قوم اپنی عظمت کو پہچان لے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، تو وہ دنیا میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ جب تک امت کے لوگ خود بیدار نہیں ہوں گے، ان کی مٹی سے لالہ زار اور ان کے دم سے بادِ بہار پیدا نہیں ہو سکتی۔
خلاصہ:
اقبال اس شعر میں امت مسلمہ کے احیاء اور اس کے اثرات کو بیان کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امت کی سرزمین پر دوبارہ عظیم لوگ پیدا ہوں، جو دنیا میں روشنی اور بہار لے کر آئیں۔ یہ شعر ترقی، بیداری، اور خود شناسی کا پیغام دیتا ہے، تاکہ امت اپنی کھوئی ہوئی عزت اور مقام دوبارہ حاصل کر سکے۔