پیشکش بحضور ملت اسلامیہرموز بے خودی

منکر نتواں گشت اگر دم زنم از عشق

منکر نتواں گشت اگر دم زنم از عشق

 ای نشہ بمن نیست اگر با دگرے ہست

: ترجمہ

اگر میں اس کی بات کرتا ہوں تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اگر یہ نشہ مجھ سے نہیں ہے تو کسی دوسرے میں ہوگا (جمال الدین عرفی)

: تشریح

جمال الدین عرفی نے اس شعر میں عشق اور اس کی موجودگی پر گہرے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شعرکے مطابق:

عشق کی حقیقت اور اس کا انکار نہ کیا جا سکنا:

شاعر بیان کرتے ہیں کہ اگر میں عشق کی بات کرتا ہوں تو اس کی بنیاد حقیقت پر ہے، اور یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ عشق کائنات میں موجود ہے۔

اگر عشق موجود نہ ہوتا تو یہ انسانی فہم، ادراک، یا دل کی امنگوں کا حصہ نہ بنتا۔ اس لیے عشق کی موجودگی کا انکار ممکن نہیں۔

نشے کی موجودگی کا فلسفہ:

شاعر مزید فرماتے ہیں کہ اگر عشق کا یہ "نشہ” میرے اندر نہیں تو کسی اور میں ضرور ہوگا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عشق ایک کائناتی حقیقت ہے، اور اگر کوئی فرد اسے محسوس نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ موجود نہیں، بلکہ یہ کسی دوسرے شخص کے وجود میں ضرور پایا جا سکتا ہے۔

کائنات میں موجود ہر شے کی حقیقت:

شاعر یہ پیغام دیتے ہیں کہ کسی چیز کا کسی شخص کے پاس نہ ہونا، اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ چیز دنیا یا کائنات میں موجود ہی نہیں۔

اس کے ذریعے شاعر انسانی محدود فہم پر روشنی ڈال رہے ہیں اور یہ سمجھا رہے ہیں کہ کائنات میں بہت سی چیزیں ہیں جو ہمارے شعور سے باہر ہو سکتی ہیں، لیکن وہ اپنی جگہ حقیقت رکھتی ہیں۔

مثال:

یہ شعر عشق اور حقیقت کے فلسفے پر مبنی ہے۔ اگر کوئی فرد کسی چیز کو محسوس نہ کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شے موجود ہی نہیں۔ مثلاً، اگر کوئی انسان خوشبو کو محسوس نہ کرے تو یہ خوشبو کے وجود کا انکار نہیں، بلکہ اس کے احساس کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

خلاصہ:

جمال الدین عرفی کا یہ شعر عشق کی موجودگی اور اس کے انکار کی نااہلیت کو بیان کرتا ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ ہماری فہم سے باہر چیزوں کی موجودگی کو رد کرنا غلط ہے، کیونکہ حقیقت کسی ایک فرد کی سمجھ بوجھ تک محدود نہیں۔ عشق اور اس کا نشہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی نہ کسی وجود میں موجود ہوتی ہے۔

شارح: محمد نظام الدین عثمان

محمد نظام الدین عثمان

نظام الدین، ملتان کی مٹی سے جڑا ایک ایسا نام ہے جو ادب اور شعری ثقافت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ سالوں کی محنت اور دل کی گہرائیوں سے، انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو نہایت محبت اور سلیقے سے جمع کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش صرف ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال کی فکر اور پیغام کو نئی نسل تک پہنچانے کی ایک عظیم خدمت ہے۔ نظام الدین نے اقبال کے کلام کو موضوعاتی انداز میں مرتب کیا ہے تاکہ ہر قاری کو اس عظیم شاعر کے اشعار تک باآسانی رسائی ہو۔ یہ کام ان کے عزم، محبت، اور ادب سے گہری وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے دیگر نامور شعرا کے کلام کو بھی یکجا کیا ہے، شاعری کے ہر دلدادہ کے لیے ایک ایسا وسیلہ مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں۔ یہ نہ صرف ایک علمی ورثے کی حفاظت ہے بلکہ نظام الدین کی ان تھک محنت اور ادب سے محبت کا وہ شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button